یہ کہانی ایک ایسے مسیحی خاندان کی ہے، جس نے پشتون قوم کی بیٹیوں کو پڑھایا ہے۔ اس مشکل اور کٹھن سفر میں اس خاندان کی خواتین کا کردار سب سے نمایاں ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
علم کی شمع جلائے رکھنے والے درس وتدریس سے وابستہ اس خاندان کا یہ سفر تقریباﹰ گزشتہ ایک سو سالوں سے جاری ہے۔ پروفیسرالون ایڈون جو اے ایڈون کے نام سے جانے جاتے ہیں اس خاندان کے سربراہ ہیں۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو کو اپنے خاندان کی داستان سناتے ہوتے کہتے ہیں،''الزبتھ سکول پشاور کے علاقے کریم پورہ کی ایک تنگ سی گلی میں 1905ء میں انگریز دور حکومت میں قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت اس سکول کو روایات کے خلاف سمجھا جاتا تھا کیونکہ انگریز دور حکومت میں لڑکیاں پردے میں یہاں آتیں اور تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ ‘‘ اُس وقت پروفیسر ایڈون کی نانی مسز آئی ڈی پرکاش اس سکول میں پڑھایا کرتی تھیں۔ یہاں ہندو، سکھ اور ایک دو مسلم گھرانوں کی لڑکیاں پڑھنے آتی تھیں۔
Published: undefined
Published: undefined
پروفیسر ایڈون کے مطابق ان کی نانی کی ہمیشہ سے خواہش اور کوشش تھی کہ پختون بچیاں بھی یہاں تعلیم حاصل کریں مگر جب 1930ء میں الزبتھ سکول اپنی اس وقت نئی اور آج کی موجودہ عمارت میں منتقل ہوا اور ایک انگریز خاتون مس میریٹ اس کی پرنسپل تعینات ہوئیں تو مسز آئی ڈی پرکاش کو انگریز دور کے ایک پختون جج کے بارے میں معلوم ہوا۔
Published: undefined
مٹہ مغل خیل سے تعلق رکھنے والے اس جج کی 5 بیٹیاں تھیں۔ ان کے بارے میں مسز آئی ڈی پرکاش نے پرنسپل میریٹ کو بتایا اور یہ مشورہ دیا کہ اگر یہ جج اپنی بیٹیوں کو پڑھانے پر راضی ہو جائے تو دیگر پشتون خاندان بھی اپنی بیٹیوں کو سکول بھیجیں گے۔ یوں ان دو خواتین نے اس جج سے ملاقات کی اور اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوائیں۔ اس کے بعد جج اپنی پانچوں بیٹیوں کو سکول بھیجنے لگے۔
Published: undefined
یہ سلسلہ مسز آئی ڈی پرکاش نے چالیس سال تک جاری رکھا، جس کے بعد علم کے زیور سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری ان کی بیٹی اور پروفیسر اے۔ ایڈون کی والدہ ایس ایڈون کے نے اٹھا لی۔ مسز ایڈون نے 45 سال اس ذمہ داری کو نبھایا۔ ان کی سب سے منفرد بات یہ کہ ان 45 سالوں میں انہوں نے سکول سے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی تاکہ بچیوں کا نقصان نہ ہو۔
Published: undefined
Published: undefined
پروفیسر ایڈون کے مطابق ان کی والدہ نے خود ماں بننے کا فیصلہ بھی تب کیا جب سالانہ چھٹیاں ہوتی تھیں اور اب اس خاندان کی ایک اور بیٹی اور پروفیسر ایڈون کی اہلیہ مسز روزلین ایڈون بھی اسی سکول میں 1988ء سے پڑھاتی آ رہی ہیں۔
Published: undefined
انہوں نے بھی 45 سال تک اس سکول میں قوم کی بیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے رواں سال الزبتھ گرلز ہائی سکول سے بطور وائس پرنسپل ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس گھرانے اور علم کی روشنی پھیلانے کا سفر 100 سال سے جاری ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
مسز روز لین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا،''اپنی بچیوں کو ان کا حق دینا اور ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا آسان نہیں تھا۔ الزامات بھی لگے، شک بھری نگاہیں اور رویے بھی برداشت کیے مگر اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ والدین کو راضی کرنے کے لیے بچیوں کی فیس خود ادا کرنے کی پیشکش بھی کرتے تھے۔ اور پھر لوگوں نے بہت اعتماد بھی کیا، اپنی بیٹیوں کی پرورش ہم پر چھوڑی بہت پیار ملا اور آج تک عزت بھی کرتے ہیں‘‘۔
Published: undefined
Published: undefined
پروفیسر اے ایڈون نے اپنی ابتدائی تعلیم پشاور میں حاصل کی پھر اس کے بعد شمالی افریقہ میں ملازمت اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1989ء میں وہ واپس پشاور آئے اور پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ کالج میں ملازمت اختیار کی جہاں وہ کئی برس تک انگریزی پڑھاتے رہے۔
Published: undefined
اُس کے بعد مشہور ایڈورڈز کالج میں بھی درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ پروفیسر ایڈون کے مطابق شمالی افریقہ کے لیے منتخب ہونے کا عمل شروع ہوا تو وہ اس وقت پی اے ایف کالج پشاور میں پڑھا رہے تھے۔
Published: undefined
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے سنہری تاریخ شیئر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا،''کالج کی لائبریرین نے بتایا کہ کیمبرج والوں کو انگریزی کے استاد درکار ہیں آپ درخواست دے دیں لیکن مجھے امید نہیں تھی کہ میں منتخب ہو جاؤں گا جس کے بعد اسی لائبریرین نے میری درخواست بھیجی پھر مجھے انٹرویو کے لیے بلایا گیا تو وہاں مجھ سمیت 7 ہزار افراد تھے، جس میں 18 کو منتخب کیا جانا تھا۔
Published: undefined
مگر میں پھر بھی اسی سوچ میں تھا کہ میں منتخب نہیں ہوں گا مگر وہ دن بھی آیا جب میں سلیکٹ ہو گیا۔‘‘ پروفیسر ایڈون نے کیمبرج میں ملازمت کے ساتھ ساتھ لیڈز یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
پروفیسر الون ایڈون کے مطابق 4 خواتین یعنی نانی، والدہ، اہلیہ اور بیٹی کا ان کی کامیابی میں90 فیصد کردار رہا ہے۔ پروفیسر ایڈون کہتے ہیں،''علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ہم نے ہمیشہ تعلیم کا حق ادا کیا۔ میں اقلیتی برادری سے ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جاؤں۔بحیثیت استاد اس شعبے نے بہت عزت دی۔ ہر مذہب کے لوگوں نے پیار، عزت اور احترام دیا جس میں سب سے زیادہ مسلمان شاگردوں کی ہے۔‘‘
Published: undefined
پروفیسر ایڈون نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا،''بطور مسیحی اس خطے کے لوگوں نے جو مقام دیا وہ کہیں اور نہیں مل سکتا۔ خیبر پختونخوا کے لوگ دنیا کے الٹ چلتے ہیں۔ دوسرے لوگ طاقتور مگر پختونخوا کے لوگ کمزور کے ساتھ کھڑے ہونا جانتے ہیں اور اسی طرز عمل نے مجھے یہاں رہنے پر مجبور کیا اور یہیں کا ہو کر رہ گیا۔‘‘
Published: undefined
اس خاندان کا درس و تدریس کا سلسلہ یہاں نہیں رکا۔ پروفیسر ایڈون اور مسز ایڈون کی بڑی بیٹی یمیمہ ایڈون اس وقت کنیرڈ کالج لاہور میں انگریزی ادب کی لیکچرر ہیں جبکہ مائرہ ایڈون تاریخی اسلامیہ کالج سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ جبکہ خیبر پختونخوا کی اقلیتی پی ایم ایس آفیسر ہیں۔ پروفیسر اے ایڈون کا اکلوتے بیٹے ڈاکٹر سڈرک ایڈون بھی اپنے خاندان کی خواتین کی طرح اس مشن کا حصہ ہیں اور پشاور کی ایک یونیورسٹی میں شعبہ مینجمنٹ سائنسز میں چیئرمین کے عہدے پر تعینات ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز