سماج

بچوں کو سیاسی مباحث کا حصہ بنانا چاہیے؟

تیسری دنیا میں سیاسی وابستگی صرف وابستگی نہیں ہوتی بلکہ عقیدت کی حدوں کو چھوتی عقیدے کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔

بچوں کو سیاسی مباحث کا حصہ بنانا چاہیے؟
بچوں کو سیاسی مباحث کا حصہ بنانا چاہیے؟ 

عقیدے کی پرورش کے لیے عقل سے مناسب فاصلہ اختیار کرنا پہلی شرط ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بچوں کو بھی اپنے ساتھ کس ایسے عقیدوی دائرے میں گھسیٹ کر لے جانا ضروری ہے، جہاں عقل کی روشنی اس دائرے سے دوری پر ہونے کی وجہ سے کم ہی پہنچ پاتی ہو۔

Published: undefined

سیاست ایک ایسی سرگرمی کا نام ہے، جس میں فیصلہ سازی کے لیے مکالمہ کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ سیاست بنیادی طور پر جنگ و جدل کا ایک ایسا متبادل ہے، جو بغیر خونریزی و دشنام طرازی کے فیصلہ سازی کے امکانات روشن کرتا ہے۔ خونریزی و دشنام طرازی وہ اعمال ہیں، جن میں انسان کے جذبات عقل پر حاوی ہوتے ہیں اور وہ بزور طاقت اپنا فیصلہ دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ جن پر وہ یہ فیصلہ مسلط کرتا ہے، وہ بھی طاقت حاصل ہونے پر یہی روش اختیار کرتے ہیں اور یوں اس دائرے میں مقید نوع انسانی کے لیے ترقی کے امکانات محدود تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

Published: undefined

جن قوموں میں نصاب کمزور اور غیر عقلی رویوں کی باقاعدہ تعلیم دینے کا رواج ہو وہاں اچھے سے اچھا خیال بھی غیر عقلی اور جذباتی رویوں کے تعفن کا شکار ہو جاتا ہے۔ تصدیق یا اعتقاد کا عقلی تعصب سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کیونکہ تصدیق کا تعصب تمام تعصبات کی ماں ہے تو اس ماں تعصب کی موجودگی میں غلط فیصلوں کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یوں لگتا ہے کہ باقاعدہ کوئی ایسا بندوبست ہے، جس میں یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ اوسط ذہن سے اوپر والا کوئی شخص نظام کا حصہ نہ بن پائے اور اگر کسی اتفاق کے نتیجے میں ایسا کوئی فرد قومی افق پر نمودار ہونے کی کوشش کرے تو اس پر زمین تنگ کر دی جائے۔

Published: undefined

بچوں کے لیے ہمارے جامد ذہن پہلے ہی بہت بڑی تعداد میں غیر عقلی سامان میسر مہیا کرنے کی فیکٹریاں ہیں۔ بچے ہمارے ہاں جب کچھ بیدار ہوتے ہیں اور سوال پوچھنا شروع کرتے ہیں تو انہیں پہلے غیر عقلی جواب دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بصورت دیگر اپنی اتھارٹی کا استعمال کر کے شٹ اپ کال دے دی جاتی ہے۔ بتا دیا جاتا ہے کہ اچھے بچے ایسے سوال نہیں پوچھتے اور بڑے جو کہتے ہیں ان کی بات کو من و عن تسلیم کرنا اچھے بچوں کی بنیادی خصوصیت ہے۔

Published: undefined

ایک انسانی بچے کی پرورش دو انتہائی سادہ اصولوں کو مد نظر رکھ کر کرنی چاہیے۔ پہلا اصول ہم دلی کا ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو گزند نہ پہنچے۔ یہ تعلیم عقلی بنیادوں پر دی جاتی ہے، جیسا کہ دوسروں کو بھی ایسے ہی تکلیف ہوتی ہے جیسے تمہیں ہوتی ہے ۔ یہ تربیت روزمرہ ہونے والے واقعات کی روشنی میں روزمرہ بنیادوں پر ہی دی جاتی ہے اور بار بار یاد دہانی کا ایک سلسلہ قائم رکھنا پڑتا ہے۔

Published: undefined

دوسرا اصول یہ ہے کہ جیسے ہم ان کے جسم کی پرورش کے لے اچھی غذا کا انتخاب کرتے ہیں، اسی طرح ان کی عقل کی پرورش سوالوں کے جواب دینے میں پوشیدہ ہے۔ ہم نے نہ صرف انہیں سوالوں کے حتی المقدور عقلی جواب دینے ہوتے ہیں بلکہ ایک ایسا ماحول مہیا کرنا ہوتا ہے کہ تجسس کو ہوا ملے اور سوالوں کے انبار پیدا ہوتے رہیں۔

Published: undefined

اگر کوئی بچہ سیاسی مذہبی ثقافتی کسی بھی حوالے سے فیصلہ کن لہجہ اختیار کرے تو نفسیات کے طالبعلم ہونے کے ناطے پہلا خیال جو میرے ذہن میں آئے گا وہ یہ ہو گا کہ اس کے والدین نے اس کی شخصیت کا احترام نہیں کیا۔ بچے کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اتھارٹی کا ناجائز استعمال کیا ہے۔ یہاں سب سے پہلے بنیادی سوال تو یہی پیدا ہو جاتا ہے کہ متذکرہ بالا تمام مباحث موضوعی ہیں ان موضوعی مباحث پر حتمی رائے آپ نے کیسے قائم کی؟ سیاست کے شعبے میں تو کھربوں کھربوں کھربوں اور لا متناہی کھربوں متغیرات ہیں تو ایسے میں زمین پر کوئی بھی فرد یہ دعوی تو کرنے سے قاصر ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی حتمی اور عقلی فیصلے تک پہنچ چکا ہے۔

Published: undefined

ہم فیصلہ ذہانت اور جذبات کے توازن سے کرتے ہیں کہ فیصلہ کرنا جب لازم ٹھہرے لیکن کوئی صاحب علم یہ کبھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس نے یہ فیصلہ مکمل طور پر درست کیا ہے اور اس کے اس فیصلے میں سقم کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے۔ وہ سچ، جن کو ہم حتمی سچ کہتے آئے ہیں، اب تو جدید علوم جیسے مابعد جدیدت نے ایسی حتمی سچائیوں کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔

Published: undefined

بچوں کو ان موضوعی مباحث پر اپنے اخذ کردہ نتائج، جن کو ہم حتمی سمجھتے ہیں دور ہی رکھنا چاہیے۔ بچوں کو بتانے والے موضوع یہ ہو سکتے ہیں کہ سیاسی ادارہ کیسے کام کرتا ہے؟ جمہوریت کے خیال کا ماخذ کیا ہے اور جمہوریت کے نظام میں کیا کیا خامیاں ہیں؟ جمہوریت کا متبادل کیا کوئی نظام اس سے بہتر ہے؟

Published: undefined

جمہوریت کو خامیوں سمیت قبول کرنا ہماری مجبوری کیوں ہے؟ مقننہ کیسے کام کرتی ہے؟ قانون بناتے وقت کن کن باتوں کا خیال رکھا جانا چاہیے؟ کیا قانون پر تنقید اور بحث ہو سکتی ہے؟ اگر کوئی قانون آپ کی رائے میں غلط ہو تو اس کو تبدیل کروانے کا طریقہ کار کیا ہے؟ مکالمہ کیوں ضروری ہے؟

Published: undefined

بچوں کو یہ ضرور بتائیے کہ اس سیاستدان نے، جو بدزبانی کی ہے غلط ہے اور بدزبانی ہمیشہ دلیل کی کمی کی صورت لاشعوری طور پر انسان کے رویے میں در آتی ہے۔ ان کو سیاسی جماعتوں کے نظریات اور ان کی کمیوں اور کامیابیوں کی طرف بلا تعصب نشاندہی کیجیے۔

Published: undefined

لیکن بچوں کو یہ بتانا کہ فلاں سیاسی جماعت غدار ہے نااہل ہے، فلاں سیاسی جماعت نے ملک بیچ دیا ہے اور فلاں سیاسی جماعت اور اس کے پیروکار ملک دشمن ہیں یا فلاں سیاسی جماعت کے ماننے والے بے وقوف ہیں اور عقل سے عاری ہیں۔ یہ سب بیانات ہمارے شدت پسند جذباتی رویوں کا مظہر ہیں ان بیانات سے بچوں کو دور رکھیں گے تو ان کا ذہن جامد نہیں ہو گا۔ سوچتا رہے گا، نئے نئے سوال کھڑے گا؟

Published: undefined

بچوں کو خود سوچنے کی عادت پڑے گی لیکن ایسے تمام خیالات جو اپنی ساخت میں شدت اور غیر عقلی پرکھ لیے ہوں گے وہ آپ اپنے بچوں کی شخصیت کا احترام نہ کرتے ہوئے اور اپنی اتھارٹی استعمال کرتے ہوئے بتائیں گے تو اس کے دو ہی نتائج ہوں گے۔ ایک وہ متحرک سوچ کے حامل افراد نہیں بن سکیں گے، جس سے ان کی ترقی کا راستہ بند رہے گا اور دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ وہ آپ کی ہی کاپی بن جائیں گے، جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ بحیثیت والدین ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہم سے ہر جہت میں بہتر ہوں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined