مغربی بنگال کے مرشدآباد کی رہنے والی پندرہ سالہ نیلم کی گزشتہ مئی میں شادی ہوئی ہے۔ یہ شادی گزشتہ دنوں آنے والے سمندری طوفان یاس سے چند دنوں قبل ہوئی۔ نیلم کے والدین کورونا وبا کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھے اور انہیں محسوس ہوا کہ سمندری طوفان کی وجہ سے انہیں بھی کافی نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے لہذا طوفان کی آمد سے پہلے ہی انہوں نے بیٹی کی شادی کر دی۔
Published: undefined
مغربی بنگال بھارت کے ان پانچ ریاستوں میں سے ایک ہے، جہاں کم عمری میں شادی کا رواج سب سے زیادہ ہے۔ بھارت میں اوسطاً بارہ فیصد لڑکیوں کی شادی پندرہ سے انیس برس کے درمیان کر دی جاتی ہے جبکہ مغربی بنگال میں یہ شرح 25.6 فیصد ہے۔
Published: undefined
مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا میں سرگرم غیر سرکاری تنظیم جبلا ایکشن ریسرچ آرگنائزیشن سے وابستہ بیتالی گانگولی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ریاست میں ایسے کنبوں کی تعداد کافی زیادہ ہے جویومیہ مزدوری پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کووڈ کی وجہ سے انہیں کام ملنا بند ہوگیا اور اب انہیں معاشی پریشانیوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔"
Published: undefined
مغربی بنگال میں حقوق اطفال کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ پوری ریاست میں اور بالخصوص دیہی علاقوں میں ایسی شادیوں کے واقعات کافی تیزی سے بڑھے ہیں جو کہ تشویش کا باعث ہیں۔
Published: undefined
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن وپلو منڈل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”ہم نے کورونا وبا کے دوران بچوں کی کئی شادیاں روکنے کی کوشش کی۔ کئی مرتبہ ہم اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہوئے لیکن اسے روکنے کے لیے غیر سرکاری تنظیموں کی مداخلت کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔"
Published: undefined
بھارت میں کم عمری کی شادی غیر قانونی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ رواج جاری ہے اور بعض ریاستوں میں اسے سیاسی رہنماؤں کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ بھارت نے سن 2006 میں کم عمری میں شادیوں کے خلاف قانون بنایا تھا لیکن وہ اب بھی پوری طرح نافذ نہیں ہوسکا ہے۔
Published: undefined
گوکہ سن 2001 کے بعد سے ملک میں ایسی شادیوں کے واقعات کم ہونے لگے ہیں لیکن اس کے باوجود سن 2011 کی مردم شماری کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں شادی کے وقت ہر تین میں سے ایک خاتون کی عمر اٹھارہ برس سے کم تھی۔ یہ شرح دیہی علاقوں میں زیادہ ہے جہاں بھارت کی دو تہائی آبادی رہتی ہے۔ بھارت میں لڑکیوں کے لیے شادی کی قانونی عمر کم ا ز کم اٹھارہ برس اور لڑکوں کے لیے اکیس برس ہے۔
Published: undefined
کم عمری کی شادی کے معاملے میں بھی صنفی تفریق واضح طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سے لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کم عمری میں شادی کا خواتین کے جسمانی اور ذہنی ترقی پر اثر ہوتا ہے۔
Published: undefined
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایناکشی گانگولی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا کے دوران بچوں کی شادی کی تعداد آسمان چھورہی ہے، ”معاشی طور پر کمزور والدین کم عمری میں ہی اپنی بیٹی کی شادی کر دیتے ہیں تاکہ وہ بیٹی کی کفالت پر ہونے والے اخراجات سے بچ جائیں۔"
Published: undefined
بھارت میں یونیسیف کی نمائندہ یاسمین علی حق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”کووڈ انیس کی وجہ سے بھارت میں اس صورتحال کی وجہ سے سے وہ فکر مند ہیں۔ وبا کی وجہ سے اسکول بند ہوگئے ہیں۔ اقتصادی طور پر لوگوں کو کافی نقصان ہوا ہے اور سماجی خدمات میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔ ان تمام اسباب سے بچوں کی شادی کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔"
Published: undefined
کم عمری کی شادیاں: پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر، ہر شادی ایک المیہدنیا کے ہر پانچویں لڑکے کی شادی بچپن میں ہی کر دی جاتی ہے یونیسیف کی نمائندہ کا کہنا تھا کہ ایسی شادیوں کے واقعات پر قابو پانے کے لیے ضلعی سطح پر موجودبلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانا چاہیے تاکہ افسران تیزی سے کارروائی کرسکیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined