سماج

اردو صحافت کا بدلتا چہرہ

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں نوے فی صد سے زائد لوگ اردوزبان میں خبریں حاصل کرتے ہیں۔ صحافتی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں پاکستان کی اردو صحافت کافی بدل گئی ہے۔

اردو صحافت کا بدلتا چہرہ
اردو صحافت کا بدلتا چہرہ 

جنوبی ایشیا میں صحافتی تعلیم کی قدیم درسگاہ سکول آف کمیونیکیشن اسٹڈیز جامعہ پنجاب کے استاد ڈاکٹرحنان احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے چند سالوں سے پاکستان میں قارئین، سامعین اور ناظرین کی بڑی تعداد کی طرف سے خبروں کے حصول کے لئے آن لائن ذرائع استعمال کے رجحان میں تیزی آئی ہے۔ ان کے بقول یہ درست ہے کہ اخبارات کی سرکولیشن کم ہوگئی لیکن ان کے خیال میں خبریں پڑھنے والوں کی تعداد اور خبریں پڑھنے کے رجحان میں کوئی خاص کمی نہیں دیکھی گئی۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے خبروں کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ موبائل فون بن چکا ہے۔

Published: undefined

ڈیجیٹل صحافت

ڈاکٹر حنان کے مطابق تمام بڑے میڈیا اداروں نے اپنی اردو ویب سائیٹس بنا لی ہیں اور وہ خبروں کی ترسیل کے لئے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس بھی استعمال کر رہے ہیں۔ کئی صحافیوں نے اپنے یو ٹیوب چینل بنا لئے ہیں۔ صحافت کی ڈیجیٹیلائزیشن کے پیش نظر پاکستان میں صحافتی تعلیم دینے والے ادارے ایڈیٹنگ اور رپورٹنگ کے سلیبس میں تبدیلیاں بھی کر رہے ہیں۔ اردو خبروں کی تیاری اور پیشکش میں موبائل ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اب صحافی موبائل پر پریس کانفرنس کے اردو میں نوٹس لیتے ہیں۔ موبائل پر اردو سٹوری لکھتے ہیں اور موبائل پر ہی ایڈیٹنگ ہوتی ہے۔

Published: undefined

ماہرین کے بقول سوشل میڈیا اور سیٹیزن جرنلزم میں بھی اردو کا استعمال پہلے سے زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اب ویب سائیٹس ، ٹیوٹر اور انسٹا گرام کو ایک اہم خبری ذریعے کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ سانحہ ساہیوال سے لیکر جنرل (ر) قمر باجوہ تک بہت سی خبریں مین سٹریم میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی رہی ہیں۔

Published: undefined

ماہرین کے مطابق جدید ٹیکنالوجی اردو صحافت کو فروغ دینے کا باعث بنی ہے۔ امریکہ چین روس برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی ممالک نے خبروں کی ترسیل کے لئے اردو سروس شروع کر رکھی ہے۔ ناروے، سویڈن، کینیڈا سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں خبروں کی فراہمی کے لئے اردو ویب سائیٹس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ سویڈن سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی عارف محمود کسانہ نے بتایا کہ ماضی میں ہم پردیس میں بیٹھے ہوئے پاکستانی لائبریری جا کر تین چار دن پرانا اردو اخبار پڑھا کرتے تھے اب اردو صحافت کے ڈیجیٹلائز ہونے سے ہمیں پاکستان میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ ہی تازہ ترین خبریں موصول ہو جاتی ہیں۔

Published: undefined

صحافتی آزادی

ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی نے خبروں کی تیاری کے عمل کو بھی بہت سہل بنا دیا ہے۔ اردو لکھنے کے ایسے سافٹ وئیر آ گئے ہیں جن کی مدد سے بغیر کسی مشکل کے یونی کوڈ میں لکھے گئے ٹیکسٹ کو ان پیج یا پی ڈی ایف فائل میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان زیرک احمد نے حال ہی میں ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک پراجیکٹ کے تحت اردو زبان کی ٹائپنگ کے لئے متن ساز کے نام سے ایک جدید ترین کی بورڈ تیار کیا ہے جس کے بعد کمپوٹرزکی جدید ترین اپلیکیشنز میں اردو کا استعمال ممکن ہو گیا ہے۔ صحافتی حلقے اس اہم پیش رفت کو اردو صحافت کے لئے اہم قرار دے رہے ہیں۔

Published: undefined

صحافت کے استاد اور تعلقات عامہ کے ایک ماہر توصیف صبیح کی رائے یہ ہے کہ اردو صحافت کے ڈیجیٹلائز ہونے سے صحافتی آزادی کو تقویت ملی ہے اور اب ماضی کی طرح کسی دباؤ کے تحت حقائق کو روکنا آ سان نہیں رہا ہے ۔ خبریں کہیں سے کہیں نکل کر عوام تک پہنچ ہی جاتی ہیں ۔

Published: undefined

ادارتی اثرورسوخ کم

یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی میں سکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹدیز کی ڈین انجم ضیا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سیٹیزن جرنلزم اور سوشل میڈیا کے فروغ سے ایڈیٹوریل چیک باقی نہیں رہا اور فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کا رجحان بڑھا ہے۔ اس لیے ڈیجیٹلائزیشن کے اس دور کے تقاضوں کے مطابق صحافت کی تعلیم دینے والے اداروں کو اپنے نصاب اور پالسیوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہوگی اور ذمہ دارانہ جرنلزم کی ضرورت اور اہمیت کے حوالے سے بھی لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

سینئیرصحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹیکنالوجی کی اس ترقی کے باوجود اردو صحافت کا اصل بحران یہ ہے کہ اردو صحافت میں ہمیں تحقیقاتی رپورٹنگ نظر نہیں آ رہی۔ میڈیا مالکان اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے مضبوط پروفیشنل ایڈیٹر رکھنے سے گھبراتے ہیں۔ اور پروفیشنل لوگ کاروباری مالکان کی ہاں میں ہاں ملانے کو تیار نہیں وہ ایسی ملازمتیں قبول نہیں کرتے اس لئے اردو صحافت بڑی حد تک بغیر کسی پیشہ وارانہ چھان بین کے چل رہی ہے جو بھی لکھا جاتا ہے وہ چھپ جاتا ہے اورکمزور ایڈیٹر کی قیادت میں کمزور مواد اردو صحافت میں جگہ پا کر اس کے زوال کا سبب بن رہا ہے۔

Published: undefined

حامد میر کو گلہ ہے کہ اردو صحافت سے منسلک صحافی محنت نہیں کرتے اور بیانات کو خبریں بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور ان کے خبری مواد کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ ایسے صحافیوں کا احتساب نہیں ہوتا جو ایک خاص پوزیشن لے کر اسی دائرے میں خبریں دے رہے ہوتے ہیں۔ حامد میر جعلی ناموں سے صحافتی لبادے میں پروپیگنڈا کرنے والے سیٹیزن جرنلسٹس کو صحافی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined