سماج

چین اور مغربی جمہوریتوں میں مسابقتی عمل بڑھتا ہوا

ماہرین کے مطابق عالمی نظام کو مغربی جمہوریتوں اور چین کے درمیان پیدا مسابقت سے شدید چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں آمرانہ حکومتیں ہیں اور ان کے چین کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔

چین اور مغربی جمہوریتوں میں مسابقتی عمل بڑھتا ہوا
چین اور مغربی جمہوریتوں میں مسابقتی عمل بڑھتا ہوا 

گزشتہ کچھ ماہ کے دوران جمہوری ممالک، جن کی قیادت امریکا کرتا ہے، اس کوشش میں ہیں کی متحد ہو کر یوکرین کی حمایت و مدد کریں تا کہ وہ روس کی فوجی چڑھائی کا بھرپور دفاع کر سکے۔ ان کی ایسی کوششوں نے کسی حد تک ماسکو حکومت پر دباؤ ضرور ڈالا ہے۔

Published: undefined

ایسے حالات میں یہ مغربی جمہورت نواز ممالک چین کی سفارتی کوششوں پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہیں کہ وہ کس انداز میں آمرانہ طرزِ حکومت والے ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

Published: undefined

فروری میں یوکرین پر روسی فوج کشی کے بعد سے مغربی اقوام نے بیجنگ کو کئی مرتبہ متنبہ کیا ہے کہ وہ روس کو فوجی امداد فراہم کرنے سے ہر ممکن انداز میں اجتناب کرے۔

Published: undefined

ایک سینیئر امریکی اہلکار نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے چین کی جانب سے روس کو فوجی و اقتصادی امداد کی فراہمی کا کوئی عمل نہیں دیکھا ہے۔ دوسری جانب ابھی تک چینی حکومت یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کے لیے تیار بھی نہیں ہے۔

Published: undefined

بیجنگ کے آئیڈیل پارٹنرز

گزشتہ دو ماہ کے دوران چین نے میانمار کی فوجی حکومت کے ساتھ چند اعلیٰ سطحی میٹنگوں کا انتظام بھی کیا اور مختلف امور میں ممکنہ امداد کا یقین بھی دلایا۔ اس کے ساتھ بیجنگ نے افغانستان کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور بحرانی حالات کے تناظر میں کثیر القومی اجلاسوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے تا کہ اس ملک کو درپیش اقتصادی بحران کی شدت کو کم کیا جا سکے۔

Published: undefined

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ چین ان دونوں ملکوں کے ساتھ مشترکہ بارڈر رکھتا ہے اور رابطوں کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنٹسٹ ایان چونگ کا کہنا ہے کہ ہمسائیگی کی وجہ سے چین ان ملکوں کے ساتھ روابط مستحکم کرنے کو اہم سمجھتا ہے۔ ایسا ابھی خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے اُن ممالک کے ساتھ روابط کو مستحکم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے جہاں آمرانہ اقدار کی حکومتیں قائم ہیں اور یہی ممالک چین کے آئیڈیل شراکت دار خیال کیے جاتے ہیں۔

Published: undefined

امریکی قیادت میں قائم نظام کو چینی چیلنج

فن لینڈ کی ہیلسنکی یونیورسٹی کے ایک خاتون ریسرچر ساری ارہو ہاورن کا کہنا ہے کہ چین کے حالیہ مہینوں کے کئی اقدام نے امریکی قیادت میں قائم انٹرنیشنل آرڈر کو یہ اشارہ دیا ہے کہ یہ آرڈر اب ایک جائز اور حقیقی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہاورن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی اشرافیہ واضح کرتی ہے کہ ان کا نظامِ حکومت انتظامی اور اقتصادی استحکام کا عملی نشان ہے اور اس کا وہ ایک ثبوت حالیہ مہینوں میں کووڈ وبا سے پیدا بحرانی حالات کے چیلنج سے نمٹنے کو بیان کرتے ہیں۔

Published: undefined

خاتون ریسرچر ساری ارہو ہاورن نے کہا کہ چین کی ترقی بھی امریکا کے لیے چیلنج بن رہی ہے۔ چینی ماہرین کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا کی سب سے مضبوط قوت چین ہے اور خاص طور عالمی دائرے کے جنوب میں اس کا ہمسر کوئی نہیں اور ویسے بھی چین کھل کر امریکی قیادت کے انٹرنیشنل آرڈر کو تسلیم بھی نہیں کرتا۔

Published: undefined

گلوبل سکیورٹی انیشیئیٹو

ہیلسنکی یونیورسٹی کی ریسرچر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چینی صدر شی جن پنگ کی گلوبل سکیورٹی انیشیئیٹو کی تجویز بھی اس ملک کے مخفی عالمی سکیورٹی کے تصور کو واضح کرتی ہے اور بیجنگ حکومت کا اس تناظر میں اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا سلسلہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

Published: undefined

چینی صدر نے گلوبل سکیورٹی انیشیئیٹو کو سالانہ اکنامک میٹنگ بوآو ایشیا فورم میں تجویز کیا تھا۔ اس میں تقریر کرتے ہوئے شی جن پنگ نے کہا تھا کہ اب اقوام کو ایک پائیدار، متوازن، مستحکم اور قابل عمل سکیورٹی کے قیام پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔

Published: undefined

ایک اور مبصر ایوانا کارساکووا کا خیال ہے کہ چینی صدر کے گلوبل سکیورٹی انیشیئیٹو کا خاکہ کسی حد تک مبہم ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس منصوبے میں چین اور روس ترقی پذیر اقوام کے علاوہ وسطی اور مشرقی یورپی ممالک کو بھی اپنے زیر اثر لانے کی تمنا رکھتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined