حکام نے بتایا ہے کہ زیادہ تر فون کالز کرنے کے لیے افغانستان کے موبائل نمبرز استعمال کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اسے ٹریس کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
Published: undefined
خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری کے لیے زیادہ تر کالز دارالحکومت پشاور، سوات اور جنوبی اضلاع کے سرمایہ داروں، تاجروں، اعلیٰ افسران اور سیاسی لوگوں کو موصول ہو رہی ہیں اور ان میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اس وجہ سے کئی کاروباری افراد نے اپنے خاندان کو محفوظ شہروں میں منتقل کر دیا ہے۔
Published: undefined
خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آنے کے بعد کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوا تھا۔ یوں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اس میدان میں متحرک ہوئی تھیں۔ وومن چیمبر کی صدر عذرا جمشید نے خواتین کو ملنے والی بھتے کی کالز کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وومن چیمبر میں زیادہ تر گراس روٹ لیول پر کاروبار کرنے والی خواتین ہیں۔ یہاں ممبر خواتین کی کوئی بڑی انڈسٹری نہیں۔ ہم انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ وومن چیمبر کے پانچ سے زیادہ ممبران میں سے کسی نے بھتے کی کالز کی شکایت نہیں کی۔
Published: undefined
لیکن صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ارکان کھل کر ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ صوبے میں کئی اہم لوگوں کو بھتے کے لیے کالز موصول ہوئی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کا دعویٰ ہے کہ کئی حکومتی افراد نے بھتے کی رقم ادا کی ہے جبکہ حکومتی ارکان کی ایک بڑی تعداد اس خوف کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
Published: undefined
صنعتکاروں اور بالاخصوص خواتین کو ملنے والی بھتے کی کالز کے حوالے سے سرحد چیمبر اف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد اسحاق کا کہنا تھا، ''یہ ایک خطرناک رجحان ہے، جو صرف صنعتکاروں تک محدود نہیں رہا بلکہ دکانداروں، سیاستدانوں اور تاجروں کو بھی اس طرح کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ہم کس کے پاس جائیں اور کس سے فریاد کریں۔‘‘
Published: undefined
ان کا مزید کہنا تھا کہ خوف اور ڈر کی وجہ سے کوئی بھی متاثرہ شخص سامنے آنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جانے کے لیے تیار ہے، ''متاثرہ افراد کا موقف ہے کہ ایسا کرنا ان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
Published: undefined
رکن صوبائی اسمبلی شگفتہ ملک نے ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر بتایا ''ہماری پارٹی نے کھل کر کہا کہ صوبے میں بھتہ خوری میں اضافہ ہوا لیکن اس کے جواب میں حکومت خاموش رہی، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ یہ حقیقت حکومت کے علم میں بھی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جن کے پاس پیسہ ہے وہ دیگر صوبوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
Published: undefined
شگفتہ ملک کے بقول بھتے کی کالز صرف کاروباری طبقے کو نہیں مل رہی ہیں بلکہ بیورو کریٹس اور تاجروں کو بھی اس طرح کی کالز موصول ہو رہی ہیں لیکن صوبائی حکومت اس پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں، ''جب ہم ایوان میں اس نکتے پر بات کرنا چاہیں تو کورم کا مسئلہ اٹھا کر اجلاس کو ملتوی کیا جاتا ہے لیکن ہم اس مسئلے کو اس وقت تک اٹھاتے رہیں گے جب تک حکومت بھتہ خوری کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہ کرے۔ ‘‘
Published: undefined
تاجروں نے شکایت کی ہے کہ صوبے میں سیاستدانوں اور کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں پر گرینڈ حملے ہوئے ہیں۔ لیکن دھمکیاں دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ جب صوبائی حکومت کے ترجمان اور وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف سے ڈی ڈبلیو نے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا، ''بھتہ خوری قانونا جرم ہے اگر کسی کو بھتے کے لیے فون کال موصول ہوئی ہے تو سامنے آئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اپنی شکایت درج کروائے۔‘‘
Published: undefined
ان کا مزید کہنا تھا کہ متاثرہ لوگوں کے سامنے آنے پر قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئیں گے۔ ان کے بقول بھتہ خوری کسی ایک علاقے کا نہیں بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اس میں ملوث لوگ وقتی طور پر بچ جائیں گے لیکن ایک دن قانون کی گرفت میں ضرور آئیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسے ہم پورا کریں گے۔‘‘
Published: undefined
بھتہ خوری میں اضافے اور حکومتی اداروں کی جانب سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے کئی سیاستدان، تاجر اور صنعتکار خیبر پختونخوا سے نقل مکانی کرکے اسلام آباد اور لاہور منتقل ہو چکے ہیں۔ پشاور سمیت مالاکنڈ ڈویژن کے کئی اضلاع میں بھتہ نہ دینے والوں کے خالی گھروں پر حملوں کی وجہ سے علاقے میں خوف و ہراس بھی پھیل چکا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined