کئی حلقوں میں اس فیصلے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے اور اسے قومی خزانے پر بوجھ قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا دعوی ہے کہ ان آٹھ معاونین خصوصی کے تقرر کے بعد وفاقی کابینہ کا حجم تقریبا 70 کے قریب ہو گیا ہے، جس میں چونتیس وزرا، سات وزیر مملکت، چار مشیر اور پچیس معاونین خصوصی شامل ہیں۔
Published: undefined
نئے معاونین خصوصی میں رکن قومی اسمبلی افتخار احمد خان بابر، رکن قومی اسمبلی مہر ارشاد احمد خان، رکن قومی اسمبلی رضا ربانی کھر، رکن قومی اسمبلی مہیش کمار ملانی، پی پی پی کے رہنما فیصل کریم کنڈی، سردار سلیم حیدر، تسنیم احمد قریشی اور محمد علی شاہ شامل ہیں۔
Published: undefined
پاکستان تحریک انصاف نے فوری طور پر ان تقرریوں پر اپنا ردعمل ظاہر کیا اور اسے قومی خزانے پر بوجھ قرار دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ ملکی خزانے کو لوٹنے کے لیے مزید لوگوں کو شامل کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک طرف شہباز شریف سرکاری خرچے پر ہیلی کاپٹر کے دورے کر رہے ہیں، جو صرف فوٹو سیشن کے لیے ہے اور دوسری طرف انہوں نے اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے معاونین خصوصی رکھ لیے ہیں، جس سے قومی خزانے پر مزید بوجھ پڑے گا۔‘‘
Published: undefined
اقبال آفریدی کے مطابق یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملک پہلے ہی 136 بلین ڈالرز سے زائد کا مقراض ہے۔
Published: undefined
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار خالد بھٹی کا کہنا ہے کہ کابینہ کے حجم کو ایک ایسے وقت میں بڑھایا گیا ہے جب سیلاب زدگان کی مدد کے لیے پائی پائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جنوبی پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ میں سیلاب متاثرین بھوک وافلاس اور دربدری کا شکار ہیں۔ وہ بیماریوں سے مر رہے ہیں اور یہاں وفاقی کابینہ کے حجم کو بڑھایا جارہا ہے۔ اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ معیشت کو دس سے تیس بلین ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔ تیس لاکھ ایکڑ سے زیادہ اراضی تباہ ہوگئی ہے۔ لاکھوں انسان کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں یہ تقرریاں انتہائی شرمناک ہیں۔‘‘
Published: undefined
خالد بھٹی کے مطابق حکمران طبقہ کی اس دلیل میں کوئی طاقت نہیں کہ وزرا اگر منسٹر انکلیو میں سرکاری گھروں میں رہتے ہیں، تو وہ اس کے پیسے اپنی تنخواہ سے کٹوا دیتے ہیں۔ ''اس جگہ گھر ایک ایک دو دو کینال یا اس سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایسے گھر دس لاکھ سے بیس لاکھ کرائے پر ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا سفر مفت ہوتا ہے۔ علاج و معالجہ حکومت کرواتی ہے۔ پٹرول اور دوسری یوٹیلیٹیز پر بھی ان کو بہت رعایت دی جاتی ہے۔ تو ان کی مراعات پر بے تحاشہ پیسہ قومی خزانے سے خرچ ہوتا ہے، جو ان حالات میں سیلاب زدگان پر لگنا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
تاہم حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صابر علی بلوچ کا کہنا ہے کہ وزرا پر ہونے والے اخراجات بہت معمولی ہیں اور ان کو قومی خزانے پر بوجھ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان 22 کروڑ سے زیادہ آبادی کا ملک ہے، جہاں پر لوگوں کے مسائل کی نوعیت مختلف اور ہرعلاقہ اور ہرصوبہ وفاقی کابینہ میں نمائندگی چاہتا ہے تاکہ اس علاقے کے مسائل حل ہو سکیں۔ موجودہ معاونین میں سے ایک بڑی تعداد ایسے ہی علاقوں کی ہے۔ یہ اتحادی حکومت ہے جس میں حکومت کے دوسرے اتحادیوں کو شراکت اقتدار کے تحت حصہ دینا پڑتا ہے لیکن اس کا مقصد صرف عوام کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔‘‘
Published: undefined
صابر علی بلوچ کے مطابق یہ معاونین سیلاب کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے میں وزیر اعظم کی مدد کر سکتے ہیں۔ ''یہ تصور غلط ہے کہ اراکین اسمبلی یا وزرا پر بے تحاشا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ یہاں تک الزام لگا دیتے ہیں کہ وزرا حج اور عمرہ بھی سرکاری پیسے سے کرتے ہیں، جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اسی طرح زیادہ تر بیرون ملک دوروں کے خرچے مہمان ممالک اٹھاتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
کئی حلقوں کا یہ دعوی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی سطح پر کابینہ کا حجم اتنا بڑا نہیں ہو سکتا۔ تاہم قانون سازی، پارلیمانی امور اور سیاسی امور کے ماہر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ وفاقی کابینہ کا حجم بہت زیادہ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' آئین کی آرٹیکل بانوے کے مطابق وزرا اور وزیر مملکت کی تعداد اراکین پارلیمنٹ کی مجموعی تعداد کا گیارہ فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری پارلیمنٹ کی مجموعی تعداد 446 ہے۔ تو اس حوالے سے وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد اننچاس ہونی چاہیے۔‘‘
Published: undefined
تاہم وزیراعظم معاونین خصوصی جتنے چاہے رکھ سکتے ہیں اس کی آئین میں کوئی حد نہیں ہے۔ وزیراعظم نہ صرف ان معاونین کا تقرر کر سکتے ہیں بلکہ ان کو وزیر یا وزیر مملکت کا درجہ بھی دے سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined