سماجی

کچھ سوال اَن دیکھے انجانے انٹرنیٹ کی بابت

خبر آ رہی ہے کہ فیس بک نے خاص ایپ مفت میں بانٹ کر معلومات کا ایک ایسا مقابلہ کرایا جس کے تحت 354یوزرس نے ساڑھے پانچ لاکھ دیگر ہندوستانی یوزرس کا ڈاٹا کمپنی کو مہیا کرا دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

انگریزی کا لفظ ہے ’ایڈیٹ‘ یعنی بے وقوف! یہ لفظ ’گریک‘ زبان سے انگریزی کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔ اس کا بنیادی مطلب ہے ریپبلک کا ایک ایسا عام شخص جس بیچارہ کی پہنچ علم اور معلومات تک نہ ہو۔ اس تشریح کے مطابق عالمی سطح پر ’انٹرنیٹ‘ پر موجود مفت ’علم کی ندی‘ میں دہائی سے زیادہ وقت سے نہاتے آئے ہم میں سے زیادہ تر لوگ جو خود کو فنے خاں سمجھتے ہیں، وہ دراصل ایڈیٹ ہیں۔یعنی نہ تو انٹرنیٹ کی بنیادی زبان ’الگوریدم‘ سے واقف ہیں اور نہ ہی اس کے فطرتاً شیطانی ہنگامہ برپا کرنے والے ساتھی سوشل میڈیا کی نت نئی تگڑم بازی( اَن دیکھے انجانے ممالک میں رجسٹر کرائے گئے مراکز سے فیس بک جیسے ساجھا پلیٹ فارموں پر چھوڑی جا رہی فیک نیوز،خفیہ سرکاری و غیر سرکاری ڈاٹا کی چوری اور ای بینک اکاؤنٹ کے ہیکنگ سے کئے گئے فرضی واڑے) سے واقف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس میڈیم کو استعمال کرتے وقت اس کے امکانات کو لے کر ضروری سوال نہیں پوچھے اور نہ ہی فیس بک، امیزن یا دیگر کمپنیوں کے ذریعہ خاموشی سے ’سیٹنگ‘ بدلنے کے ساتھ بدلتے طریقہ کار یا نیت کی بابت معلومات حاصل نہیں کیں۔ اس صدی کے آخر میں جب ان کمپنیوں نے ہم کو علم حاصل کرنے سے متعلق کئی طرح کے دلچسپ انجن اور ان کو رفتار دینے والے ’ایپس‘ مفت میں تھمائے تو ہم میں سے اکثریت نے راتوں رات اپنے ذاتی ڈاٹاکے استعمال کی اجازت ان کمپنیوں کو دے دی اور خود ہم نے مفت کی معلومات اور ورچوئل میڈیا نے ان کا پوری دنیا میں دھڑلے سے استعمال کیا۔ امریکہ میں کچھ صارفین نے سال2011 میں ہی فیس بک کی کچھ حرکتوں کو دھوکہ بتاتے ہوئے ان کو کمرشیل استعمال کے لئے خاموشی سے دستیاب کرانے کے بابت فیڈرل ٹریڈ کمیشن سے شکایتیں کی تھیں ، لیکن دنیا کے باقی یوزرس یعنی صارفین نے اس کا خاص نوٹس نہیں لیا۔ اب خبر آ رہی ہے کہ فیس بک نے خاص ایپ مفت میں بانٹ کر معلومات کا ایک ایسا مقابلہ کرایا جس کے تحت 354یوزرس نے ساڑھے پانچ لاکھ دیگر ہندوستانی یوزرس کا ڈاٹا کمپنی کو مہیا کرا دیا۔ یہ ڈاٹا اس نے دیگر افراد کے علاوہ کیمبرج انیلیٹکا نام کی کمپنی کو فروخت کیا جس نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے بھی منافع لے کر ان تمام ذاتی معلومات کو کئی سیاسی پارٹیوں کو دستیاب کرایا۔اور یہ کام ہندوستان ہی نہیں یوروپ میں بھی کئے جانے کی خبر ہے۔ جرمنی میں صرف35 یوزرس نے ایک لاکھ سے زیادہ افراد کا ذاتی ڈاٹا کمپنیوں کو دیا جسے اس نے ایڈورٹائزنگ کمپنیوں اور سیاسی لوگوں کو فروخت کیا۔ جرمنی نے یوروپی یونین میں اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ میانمار کی خبر ہے کہ وہاں بھی سوشل سائٹس اور فیس بک کا یوزرس نے سیاسی اور ذات پر مبنی نفرت پھیلانے کا استعمال کر کے روہنگیا اقلیتوں کا قتل عام کرا دیا۔ اور اب جبکہ گھوڑا اصطبل سے بھاگ نکلا ہے حکومتیں اس پر تالا لگانے کا منصوبہ بناتی ہوئی پوچھ رہی ہیں کہ کون سی میگا کمپنی نے کتنا ذاتی ڈاٹا چوری چھپے نکالا اور کس طرح نکالا؟اور کس کس نے اسے خرید کر کس طرح کے کاموں میں استعمال کرکے کتنا منافع کمایا۔ دقت یہ بھی ہے کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے یہ سب کمپنیاں عالمی اقتصادیات کی طاقتور ہستیاں بن گئی ہیں اور ان کے شئیر اوندھے منہ گرنے کا مطلب عالمی بازار میں ہڑکمپ!

لیکن ان اقتصادی سوالات سے کہیں زیادہ اہم ہیں جمہوری اور اخلاقی سوال۔ سوشل میڈیا کی بڑھتی گرفت اور پرانے میڈیا کی انٹرنیٹ سے حاصل کی گئی معلومات پر انحصار کے سبب جمہوریت کی بنیاد یعنی فکر و خیالات اور فیصلہ لینے کی آزادی کیا اب ویسی رہ سکتی ہے جیسی پہلے ہوا کرتی تھی؟ کئی ممالک سے ثبوت مل رہے ہیں کہ کروڑوں صارفین کے زندگی جینے کا طریقہ، پسند و نا پسند اور ان کے رجحان کو کمپنیاں آج اس فروخت ہونے والے ڈاٹا کی مدد سے پوری طرح کیلکولیٹ کرنے کے بعد ان کو خاص سمت میں بہنے کو مجبور کر سکتی ہیں جو صارفین کی جانکاری کے بغیر ان کو خاص پروڈکٹس یا اطلاعات کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ جب جب ہم ایپ ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں، ہم سے طرح طرح کے قبول نامہ مانگے جاتے ہیں جن پر ہم بٹن دبا کر اپنا قبول نامہ دے دیتے ہیں ، بغیر یہ سمجھےکہ ہم کہیں اپنے ذاتی حق تو قربان کرنے نہیں جا رہے ہیں ؟

Published: undefined

پرانے سیاسی رہنما اور میڈیا والے خود کو انسانی مزاج ، پیڈ نیوز یا انتخابی چندوں سے متعلق اندر کی باتوں اور ووٹ بینک کے زبردست واقف کار مانتے اور بتا تے آئے ہیں، لیکن ہم میں سے بھی زیادہ تر آج فیک نیوز اور حقیقی نیوز میں صاف صاف فرق پتہ لگانے میں ایڈیٹ ثابت ہوئے ہیں۔ ابھی کل تک ہندوستان کو اسمارٹ ملک بنانے، کاغذی کیش ختم کر کے ای منی کو کرنسی بنانے کا خواب بیچنے والے ہمارے جو سیاسی رہنما، اور ہندوستانی سلیکان ویلی کے معزز و محترم زمارک زکر برگ یا گیٹس کی آمد پر پلکیں بچھائے کھڑے تھے، آج فیس بک کے راز کھلنے کے اور ہندوستانی بینکوں سے لئے قرض ای بینکنگ کے ذریعہ ہیراا تاجر، کارپوریٹس کے ذریعہ سات سمندر پار بھیج دیے جانے کی تفصیلات سے پوری طرح سکتے میں ہیں۔ ان میں سے کئی لیڈر طرح طرح کے اپنے جوشیلے خطبات سے جن 18برس کے طلباء اور ووٹ بینک کو فروغ دے رہے تھے وہ بھی انٹرنیٹ سے لیک کرائے گئے سی بی ایس ای کے پیپر کو ملک بھر میں فروخت کیے جانے کے واقعہ سے محسوس کر رہے ہیں کہ اسمارٹ دنیا کے نئے اسمارٹ خطرات کا کوئی قابل بھروسہ توڑ اس وقت ان کے پاس نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ طلباء کو ناراض کر کے ان کو امتحان دینے کے لئے دوبارہ مجبور کرایا جائے۔ اس کے بعد بھی سائٹیں وقت پر کھل جائیں گی اور کنیکٹیوٹی اچانک دَم نہ توڑ دے اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔

آخری بات۔ نئی نسل کو مارک زکر برگ کی بنائی گئی فیس بک کی دنیا میں بنائی گئی دوستیاں، تصاویر، سیلفی اور لائکس کوہی حقیقی انسانی دوستیاں، رشتے اور آپسی سماجی بات چیت بناتی جا رہی ہیں ۔ وہ اسے بھلے ہی کول((cool مانیں لیکن سمجھدار لوگوں کے لئے نوجوان نسل کے بڑے اور تعلیم یافتہ گروپ کا اس طرح سکڑنا اور دوستی یا گفتگو کا ذاتی ہونے کے بجائے مشینی اور چھچھورا بن کر رہ جانا بچوں اور جمہوریت کے تعلق سے تشویش کا سبب بننا چاہئے۔

اگر آنے والے وقت میں آرٹیفیشل انٹلیجنس (مصنوعی ذہانت) پوری طرح اس حلقہ کو چلانے لگے تو بات دیگر ہے لیکن وہ کل ہم نے نہیں دیکھا۔ آج کی تاریخ میں ذاتی یا قومی زندگی میں الگوردم سے بنی، نکلی اور بھیجی جا رہی معلومات کبھی بھی گہرے علم کا متبادل نہیں بن سکتی کیونکہ زندگی مختلف رنگوں اور سطحوں سے بنتی ہے۔ کیا فیس بک پر پندرہ سو دوست کسی کی ذاتی زندگی کی خوشی یا غم اس طرح بانٹ سکتے ہیں جیسے پندرہ انسانی دوست اور رشتہ دار؟فیک نیوز سے فساد کروا کر اور کسی کو بدنام کر کے تا حیات انتخابات جیتے جا سکتے ہیں؟ عوام کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے ؟ ہم انٹرنیٹ ایڈیٹس اب بھی ان سوالوں کو لے کر بے چین نہیں ہوئے اور ہوش میں نہ آئے تو بہت دیر ہو جائے گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined