سماجی

عدلیہ کے کردار کا دوسرا پہلو... سہیل انجم

ہندوستانی عدلیہ اگر بعض معاملات میں قابل تعریف قدم اٹھاتی ہے تو بہت سے معاملات میں اس کے فیصلوں پر سوالیہ نشان بھی لگائے جاتے ہیں۔ عدالت کے کردار کے اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت، تصویر آئی اے این ایس
عدالت، تصویر آئی اے این ایس 

ہم نے گزشتہ کالم میں بعض عدالتی فیصلوں کی روشنی میں کہا تھا کہ شکر ہے کہ عدلیہ کا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ یہ بات بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان کو جمہوریت کی شاہراہ سے ہٹا کر فسطائیت کی پگڈنڈی پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جس میں حکمراں طبقہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہو گیا ہے، عدالتوں کا دم غنیمت ہے۔ اگر ہمارے ملک کی عدالتیں بھی سو جائیں تو پھر سونے والوں کو کون جگائے گا اور مظلوموں کی داد رسی کون کرے گا۔ حالانکہ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی جاتی رہی ہے کہ ہندوستان کا قانون امیروں کے حق میں ہے غریبوں کے نہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دیپک گپتا بھی یہ حقیقت بیان کر چکے ہیں۔ ادھر ابھی چند روز قبل اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس مرلی دھر نے بھی اس تلخ حقیقت کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرائی ہے اور کہا ہے کہ ہندوستان کے قوانین اس انداز میں بنائے گئے ہیں کہ وہ غریبوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں اور امیروں اور غریبوں کے ساتھ ان کا رویہ مساوی نہیں ہے۔

Published: undefined

حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف امیر غریب تک محدود نہیں ہے بلکہ بعض اوقات مذہب کی بنیاد پر بھی اس قسم کے فیصلے آجاتے ہیں۔ اس کو جاننے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایودھیا کی بابری مسجد کا کیس سب کے سامنے ہے۔ جب اس معاملے میں فیصلہ سنایا جانا تھا تو عدالت نے بابری مسجد کے حق میں دیئے جانے والے تمام دلائل تسلیم کر لیے اور مندر فریق کے دلائل مسترد کر دیئے۔ یہاں تک کہ عدالت نے کہا کہ جہاں بابری مسجد کی تعمیر ہوئی تھی وہاں پہلے کوئی مندر نہیں تھا۔ بلکہ وہاں کوئی عمارت ہی نہیں تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ اس نے یہ بھی مانا کہ بابری مسجد کے اندر رام جی پرکٹ نہیں ہوئے تھے بلکہ وہاں مورتیاں رکھ دی گئی تھیں۔

Published: undefined

اس کے باوجود اس نے ہندووں کے حق میں فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کی زمین رام مندر کی تعمیر کے لیے دے دی۔ اس نے کہا کہ یہ فیصلہ ہندووں کی آستھا کی بنیاد پر سنایا جا رہا ہے۔ جبکہ اسے آستھا کی بنیاد پر نہیں بلکہ شواہد اور حقائق اور مالکانہ حقوق کی بنیاد پر فیصلہ سنانا تھا اور اگر آستھا کی بات تھی تو پھر مسلمانوں کی آستھا کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کو آستھا کی بنیاد پر انصاف نہیں ملنا چاہیے۔

Published: undefined

اس کے فوراً بعد لکھنؤ کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے ان تمام لوگوں کو بری کر دیا جنھوں نے بابری مسجد کو منہدم کیا تھا اور کہہ دیا کہ کسی نے بھی اس کا انہدام نہیں کیا بلکہ وہ از خود گر گئی تھی۔ حالانکہ یہ دنیا نے دیکھا تھا کہ کس طرح مذہبی جنون میں مبتلا لاکھوں کے ہجوم نے بزور طاقت بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا وہ بھی دن کے اجالے میں۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اسے زبردستی اور غیر قانونی طریقے سے ڈھایا گیا۔ لیکن سی بی آئی عدالت نے ان مجرموں کو جنھوں نے بھری دوپہر میں آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی تھیں بے قصور قرار دے کر انھیں ان کے جرم سے بری کر دیا۔ مذکورہ دونوں فیصلے ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں ناانصافی پر مبنی فیصلے کہے جائیں گے۔

Published: undefined

دہلی میں 2020 میں جو فسادات ہوئے تھے ان میں پولیس کا کردار بہت ہی واضح انداز میں مسلم مخالف رہا ہے۔ اس نے خود ان دنگوں میں شرکت کی اور مسلمانوں کو بھارت ماتا کے نعرے لگانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ اس نے شرپسندوں کے ساتھ مل کر مسلم علاقوں میں لوٹ پاٹ کی اور ان کے مکانوں و دکانوں کو تہس نہس کرنے میں ہاتھ بٹایا۔ اس نے اس کے بعد جو کارروائی کی وہ بھی کھلم کھلا مسلمانوں کے خلاف تھی۔

Published: undefined

اس نے فساد کے ذمہ دار بی جے پی لیڈر کپل مشرا کو بے قصور قرار دے دیا اور کہا کہ وہ تو فساد روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جبکہ دنیا نے دیکھا تھا کہ کس طرح انھوں نے دھمکی دی تھی۔ جب دہلی پولیس فساد سے متعلق مقدمات لے کر عدالتوں میں پہنچی تو عدالتوں نے اس ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا جس کا انھیں دینا چاہیے۔ اس نے پولیس کے بہت سے الزامات کو تسلیم کر لیا۔ ہاں کچھ معاملات میں اس نے مسلمانوں کو راحت دی۔ لیکن مجموعی طور پر اس کا رویہ پولیس کے ساتھ ہمدردانہ رہا مظلوموں کے ساتھ نہیں۔

Published: undefined

سال 2014 کے بعد سے ان صحافیوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے جو حکومت کی غلط پالیسیوں کے حامی نہیں ہیں اور جو اس کی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ پولیس ایسے لوگوں کو گرفتار کر لیتی ہے اور ان پر یو اے پی اے اور قومی سلامتی ایکٹ جیسے خطرناک قوانین لگا دیتی ہے۔ لیکن جب ان کے معاملے عدالتوں میں جاتے ہیں تو عدالتیں ان صحافیوں کو ضمانت دینے سے انکار کر دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں صدیق کپن کی مثال دی جا سکتی ہے کہ کس طرح ان کو ہاتھرس جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا اور ان پر یو اے پی اے لگا دیا گیا۔ لیکن عدالت نے آج تک پولیس سے یہ نہیں پوچھا کہ صدیق کپن کا وہ کون سا جرم ہے جس کی بنیاد پر ان کے خلاف یو اے پی اے لگایا گیا۔ اس نے تادم تحریر ان کو ضمانت نہیں دی ہے۔ اسی طرح معروف صحافی رعنا ایوب کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔

Published: undefined

جبکہ ہندووں سے ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے یتی نرسنگھا نند اور ان جیسے دیگر غنڈوں کو ضمانت دے دی جاتی ہے۔ سیتا پور کے اس نام نہاد بھگوا دھاری سادھو کو بھی بہت جلد ضمانت مل جاتی ہے جس نے مسلم خواتین کے اغوا اور ان کے ریپ کی دھمکیاں دی تھیں۔ ایسی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جہاں عدالتوں نے سنگین جرائم کے مرتکبین کو ضمانتیں دی ہیں۔ لیکن دوسروں کو نہیں دیں۔ مدھیہ پردیش کی پولیس نے ایک صحافی اور کئی فنکاروں کو محض اس لیے گرفتار کیا کہ وہ ایک بی جے پی ایم ایل اے کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے اور ان کو نیم عریاں کرکے ان کی تصاویر لیں اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیں۔ لیکن عدالت نے اس بارے میں پولیس سے کوئی سوال نہیں کیا۔

Published: undefined

کرناٹک کے بعض کالجوں میں جب حجاب کا تنازع اٹھا اور بعض مسلم طالبات نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو عدالت نے ایک طویل سماعت کے بعد کہہ دیا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے۔ اسی طرح اس سے قبل سپریم کورٹ یہ کہہ چکا ہے کہ مسجد اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے یعنی نماز کے لیے مسجد ضروری نہیں ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے بھی مسلمانوں کے مذہبی معاملے میں مداخلت کی اور حجاب پر پابندی لگا دی۔

Published: undefined

جبکہ عدالت کا کام مذہبی امور کی تشریح کرنا نہیں نہیں بلکہ کسی بھی معاملے کے قانونی پہلووں کو دیکھنا ہے۔ مذہبی امور کی تشریح مذہبی شخصیات کرتی ہیں۔ اب اگر کسی قانونی مسئلے کی تشریح کوئی دیہاتی کسان کرنے لگے تو کیا اسے تسلیم کیا جائے گا۔ نہیں، کیونکہ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ اسی طرح عدالتیں مذہبی امور کی تشریح کی مجاز نہیں ہیں۔ لیکن کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب معاملے کو قانونی نقطہ نظر سے دیکھنے کے بجائے مذہنی نقطہ نظر سے دیکھا اور حجاب کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔ کیا یہ فیصلہ ایک خاص طبقے کو خوش کرنے کے لیے نہیں ہے۔

Published: undefined

مدھیہ پردیش کی پولیس نے کھرگون میں ایک تشدد کے بعد مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو منہدم کر دیا۔ جبکہ اس کے پاس نہ تو عدالتی اجازت تھی اور نہ ہی اس نے اس معاملے میں لوگوں کو کوئی نوٹس دیا تھا۔ اسی طرح یوپی میں متعدد مقامات پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ چلیے دہلی کی جہانگیر پوری میں بلڈوزر کی کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ نے ایکشن لیا لیکن دوسرے مقامات پر بھی وہی سب کچھ ہو رہا ہے لیکن عدالتیں خاموش ہیں۔

Published: undefined

ایسی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں جہاں عدالتوں نے اس طرح سے کام نہیں کیا جیسا کہ انھیں کرنا چاہیے۔ یہ عدالت کے کردار کا دوسرا پہلو ہے جو تشویش ناک بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ عدالتوں کو تو سب کے ساتھ یکساں اور قانون کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے لیکن وہ بہت سے معاملات میں ایسا نہیں کرتی۔ جب معاملہ حکومت کا ہو تو وہ اور بھی خاموش ہو جاتی ہے۔ ہندوستانی عدلیہ اگر بعض معاملات میں قابل تعریف قدم اٹھاتی ہے تو بہت سے معاملات میں اس کے فیصلوں پر سوالیہ نشان بھی لگائے جاتے ہیں۔ عدالت کے کردار کے اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined