سائنس اینڈ ٹیکنالوجی

ہم کہاں سے آئے... تیسری قسط

یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ہم درجہ بہ درجہ ارتقائی منزلوں کو طے کرتے ہوئے آئے اور ہمارے جینس 96 فی صد چیمپیزی سے ملتے ہیں۔ ہم لاکھوں سال میں ارتقا کے دھیمے راستے سے ہوکر ان منزلوں تک پہنچے ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

وصی حیدر

اس مضمون کی پچھلی دو قسطوں میں یہ ذکر ہو چکا ہے کہ پچھلے 65 ہزار سال میں ہمارے ملک میں آنے والے پہلے افریقہ سے ہجرت کرنے والے ہوموسیپین اور اس کے بعد مغربی مشرقی اور مرکزی ایشیا سے آنے والے انسان گھل مِل گئے۔ یعنی یہ کہنا کہ ہم خالص کسی ایک نسل سے ہیں بے معنی بات ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی پکوان کا مزہ اس میں دسیوں مسالوں سے آتا ہے ویسے ہماری نسل کی خوبصورتی یہی ہے کہ اس میں بہت ساری نسلوں کی عمدہ ملاوٹ ہے۔

Published: undefined

پچھلے 3000 سال کی سائنس کی تاریخ سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ اکثر چیزیں ویسی نہیں ہیں جیسا کہ سرسری طور سے دیکھنے میں لگتا ہے۔ آگے بیان کی گئی ایک مثال اس بات کو سمجھنا آسان کر دے گی۔

Published: undefined

جب آپ اس مضمون کو پڑھ رہے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ سکون سے بغیر ہلے ہوئے اپنی کرسی پر آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن ایسا صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ جس کہکشاں کا حصہ ہیں وہی خود تقریباً دو لاکھ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کائنات میں چل رہی ہے اور پھر ہماری اپنی دھری پر 1600 کلو میڑ فی گھنٹہ کی رفتار (خط استوا Equator) سے گھوم رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری زمین سورج کے چاروں طرف آٹھ لاکھ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ یعنی تقریباً آدھے منٹ کے وقفہ (یعنی جتنی دیر آپ کو یہاں تک پڑھنے میں لگی) میں آپ ہزاروں کلو میٹر چل چکے ہیں جس کا آپ کو احساس بھی نہیں ہوا۔ یہ تمام سائنسی تحقیقات کے جن کی مدد سے ہم یہ جان پائے کہ ہم جس زمین پر رہتے ہیں وہ سورج کے گرد گھومنے والے آٹھ سیاروں میں سے ایک ہے اور پیلے رنگ کا سورج ہماری کہکشاں کے کروڑں ستاروں میں ایک اوسط درجہ کا ستارہ ہے اور خود ہمارے کہکشاں کے علاوہ کڑورں کہکشائیں ہیں۔ یہ تمام معلومات کچھ کم سمجھ والے انسانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیں گیں، لیکن سمجھدار انسان کو کائنات میں ہونے والے اس رقص کا حصہ بنا کر سحر انگیز کردیں گے اور ہم فخر کریں گے اتنا سب کچھ ہم جان پائے ہیں۔

Published: undefined

اوپر بیان کی گئی سمجھ نہ صرف مادیات کے لئے بلکہ اس زمین پر رہنے والی ہر طرح کی زندگی کے لئے بھی سچ ہے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے ڈارون (1882-1809) کا چونکا دینے والا انکشاف کہ انسان ارتقاء کی منزلیں طے کرنے کے بعد ایسا ہے (اور یہ کہ شاید چمپینزی Chimpanzee) ( ہمارے سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہیں) اور پھر اس کے بعد دسیوں اور انکشاف نے یہ صاف کردیا کہ انسانی زندگی اور طرح کے جانداروں کی بنسبت کسی خاص مرتبہ کی حقدار نہیں ہے۔

Published: undefined

پہلے ہم یہ سوچتے تھے کہ ہم انسان (ہومواسپین) اس زمین پر نمودار ہوئے تو ہم نے ہر چیز اوزار، تہذیب، فن اور ہنر سب کو بہتر کردیا۔ یہ اب خوب اچھی طرح معلوم ہے یہ سب کچھ غلط ہے اور ہمارے ارتقائی بھائی، ہوموایکٹس، ہومو نینڈرتھیل اور ڈینسون ہم سے کچھ زیادہ کمتر نہیں تھے ۔ اور ایسا کوئی معرکہ اریز واقعہ نہیں تھا کہ ہم یہ کہہ سکتے کہ ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ انسانوں کی باقی تمام نسلوں (صرف ہوموسیپین ہی اب بچیں ہیں) کے انسانوں کے بھی ہماری طرح کے سر میں بڑا دماغ تھا۔

Published: undefined

پچھلے چند سالوں میں تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہوموسیپین باقی اور انسانوں سے جنیٹکس کے اعتبار سے گھل مل کر نسل افزائی کر سکتے تھے۔ ہم کو یہ معلوم ہے کہ افریقہ کے باہر انسانوں میں تقریباً دو فی صدی جینس نینڈرتھیل کے ہیں۔ اور ہم میں سے کچھ (اسٹریلیا کے Aborigines Papauns اور Melanesians) میں تین سے لے کر چھ فی صدی جینس ڈنیسون (Denisovan) کے اب بھی موجد ہیں۔ یعنی ہمارے خون میں ان کا بھی رنگ موجود ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ارتقائی بھائی ہیں۔

Published: undefined

یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ہم درجہ بہ درجہ ارتقائی منزلوں کو طے کرتے ہوئے آئے اور ہمارے جینس 96 فی صد چیمپیزی سے ملتے ہیں۔ ہم ایکدم سے نہیں بلکہ لاکھوں سال میں ارتقا کے دھیمے راستے سے ہوکر ان منزلوں تک پہنچے ہیں۔

Published: undefined

کم سمجھ والے لوگ ان حقیقتوں کو نہ مانیں یا بھولنا چاہیں لیکن یہ سائنسی سمجھ ہم کو ہر طرح کی حیات کی خوبصورتی اور یونیٹی میں باندھتی ہے۔ جو بات کائنات اور علم حیات کے لئے صحیح ہے وہی بات انسانی تاریخ کے لئے بھی اتنی ہی صحیح ہے۔ ہوموسیپین اس زمین پر صرف پچھلے 3 لاکھ سال سے ہیں جبکہ حیات کی اور قسمیں تقریباً 40 کروڑ سال ہیں اور ہم ہر طرح کی انکساری اور حقیقت کو جھٹلا کر یہ سوچتے رہے کہ ہم بہت خاص ہیں اور ہم کو تمام چیزوں پر حکمرانی کا خاص اختیار ہے۔ یہ سب غلط ہے اور کسی طرح کی زندگی کسی اور زندگی سے برتر نہیں ہے۔ اگر کوئی خاص ہے تو سب ہی خاص ہیں۔

Published: undefined

کوئی بھی قوم دنیا کے مرکز پر نہیں ہے ہم سبھی گول دنیا کی سطح پر رہ رہے ہیں۔ صدیوں سے مختلف قومیں، بادشاہ اپنے کو خاص برتری کا درجہ دیتے رہے ہیں اور اور بادشاہ اہنے کو خدا کا اوتار مانتے رہے ہیں، لیکن اب ہم کو خوب اچھی طرح معلوم ہے جنیٹکس کے اعتبار سے ہم سب ہوموسیپین اور یکسانیت ہماری سمجھ سے کہیں زیادہ ہے۔ چاہے وہ آرین ہوں یا آدیواسی یا ریڈ انڈین ہم سبھی ہوموسیپین ہیں اور ایک ہی طرح کے ایٹم اور مالیکیول کے بنے ہوئے ہیں۔

آگے کی باتیں اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined