سائنس اینڈ ٹیکنالوجی

ہڑپا اور موہن جودارو، ایک انوکھی تہذیب... وصی حیدر

موہن جودارو میں صرف ایک خوبصورت مورتی جو شاید کسی اہم پجاری یا بادشاہ کی ملی ہے، وہ بھی صرف 17 سینٹی میٹر لمبی ہے۔ جبکہ میسوپاٹامیا میں عام شاہراہوں پر بادشاہوں کی بڑی بڑی مورتیاں لگانے کا رواج تھا۔

پاکستان: وادی سندھ میں موہن جودارو کے آثار قدیمہ کے مقام کا گڑھ / Getty Images
پاکستان: وادی سندھ میں موہن جودارو کے آثار قدیمہ کے مقام کا گڑھ / Getty Images 
پچھلی قسط میں موہن جودارو، ہڑپا اور میسوپوٹامیا میں جانوروں کی کہانیوں کے لین دین کا اثر مختلف مہروں اور پکی ہوئی مٹی کی مہروں کا ذکر کیا گیا تھا، اب ذرا کپڑوں اور ان کے پہننے کے طریقوں میں یگانگت کا ذکر ہوگا۔

(22 ویں قسط)

ان دونوں جگہوں پر کپڑے کی چادر کو پہننے کی طریقہ بھی کافی ملتے ہیں۔ پجاری بادشاہ کے چادر پہننے کا طریقہ ایک جیسا ہے، داہنا کندھا کھلا اور بائیں کندھے پر چادر اور اس پر خوبصورت ڈیزائن اور قیمتی پتھر جڑے ہوئے۔ اس کو پریوالا نے اپنی کتاب ’’ہندومذہب کی جڑیں‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ پجاری بادشاہ کے کپڑوں پر چاند تارے بنے ہوتے تھے اور یہ کپڑے آسمانی کپڑے کہلاتے تھے۔ اور دونوں جگہوں پر اس طرح کے کپڑوں میں بہت مشابہت ہے۔ سرکے بالوں کو سنوارنے کا طور طریقہ بھی ایک جیسا تھا، بالوں کو سر پر دو جوڑوں کی شکل میں کسی پن کے ذریعہ باندھا جاتا تھا۔ ان مشابہات کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ ہڑتا تہذیب ایک انوکھی اور میسوپوٹامیا سے کئی معنوں میں فرق تھی۔

Published: undefined

میسوپاٹامیا کی تہذیب کے زیر اثر ہر شہر میں بڑے مندر اور ان کے الگ الگ دیوی دیوتاؤں کے بڑے بڑے محل تھے، جہاں پوجا پاٹ اور عبادت کرنے کا انتظام تھا، اس کے برخلاف ہڑتا کے کسی بھی علاقہ میں نہ کوئی بڑا مندر نہ دیوی دیوتاؤں کے بڑے گھر اور نہ ہی کسی طرح کی عبادت کرنے کی جگہیں پائی گئیں۔ عراق میں 28 بڑے مندر اور ایران میں 4 مندر پائے گئے ہیں، جبکہ ہڑپا تہذیب کے زیر اثر بہت بڑے علاقہ میں کہیں بھی کسی طرح کے مندر یا عبادت کرنے کی جگہوں کے آثار نہیں ہیں۔

Published: undefined

ہڑپا کی کھدائیوں میں کہیں بھی کوئی بادشاہوں کا محل یا بڑی عمارت نہیں ملی، جبکہ میسوپاٹامیا میں بادشاہوں کے رہنے کے لئے عالیشان محلوں کا عام رواج تھا۔ اور نہ ہی بادشاہوں کی شان میں قصدے یا خوبصورت مورتیاں بنانے کا رواج تھا۔

Published: undefined

موہن جودارو میں صرف ایک خوبصورت مورتی جو شاید کسی اہم پجاری یا بادشاہ کی ملی ہے، لیکن وہ بھی صرف 17 سینٹی میٹر لمبی ہے۔ جبکہ میسوپاٹامیا میں عام شاہراہوں پر بادشاہوں کی بڑی بڑی مورتیاں لگانے کاعام رواج تھا۔

Published: undefined

میسوپوٹامیا میں بادشاہوں کے دفنانے کا نہایت ہی عالیشان طریقہ تھا اور ان کے بڑے مقبروں میں مرنے کے بعد زندگی گزارنے کی آسائشوں کا انتظام اور خاص کر کھانے پینے کے لئے شاہی برتن، نوکر اور بہت سارے زیورات بھی مقبروں میں رکھے جاتے تھے، اس کے برخلاف ہڑپا میں نہایت سادہ طریقہ اپنانے کا رواج تھا۔ کھانے پینے کے بڑے برتنوں میں گوشت کا انتظام اور بہت کم اوزار اور زیور۔

Published: undefined

اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہڑتا کے لوگوں کو خوبصورت زیورات بنانے نہیں آتے تھے۔ اس کے برخلاف ہڑپا کے لوگوں کے بنائے ہوئے زیورات میسوپوٹامیا کے مقبروں میں پائے گئے ہیں۔ دراصل ہڑپا کے کاریگروں کے بنائے ہوئے زیورات کی باہر بہت مانگ تھی اور ان کا تجارت میں استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ خاص فرق تھا کہ ہڑپا کے لوگ، چین کی طرح قیمتی زیورات بجائے مردوں کے اپنی اولادوں کے لئے استعمال کرتے تھے۔ حالانکہ اس بات سے یہ گمان ہوا کہ ان مقبروں کی کھدائی سے میسوپوٹامیا کے لوگوں کے رہن و سہن کے بارے میں بہت سی چیزیں معلوم ہوئیں، جو ہم ہڑپا کے بارے میں نہیں جان سکتے۔ ان بڑے مقبروں کی مثال کے طور پر جیسے احرام مصر (pyramids) سے اب بھی ان تہذیبوں کے بارے میں نئی نئی چیزیں معلوم ہو رہی ہیں۔

Published: undefined

ہڑپا تہذیب کا ایک اور دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی حیرت انگیز اور انفرادی پہلو کسی بھی طرح کے تشدد کے نشانات کی عدم موجودگی۔ انسانوں کی آپس میں کسی بھی طرح کی لڑائی یا کسی فوج کی فتح کے جشن کا اظہار نہیں۔ آسمانی آفتوں سے لڑائی یا جنگلی جانوروں کے شکار کی تو ضرور کچھ مہروں میں تصویر ہے لیکن انسانوں کا دوسرے انسانوں پر کسی بھی طرح کے ظلم کے ایک بھی نشان نہیں پائے گئے۔ نا ہی کسی بھی طرح کی فوج اور لڑائی کے ہتھیاروں کا استعمال ہڑپا میں ہی ملا، صرف جانوروں کے شکار کے لئے استعمال ہونے والے ہتھیار استعمال ہوتے تھے۔ ہڑپا تہذیب کے 7 سو سال کے وقفہ (1900-2600 ق م) کے دوران کسی حملہ یا شہروں پر قبضہ کرکے جلانے کا ایک بھی ثبوت نہیں ہے۔

اگلی قسط میں ہڑپا تہذیب کی کچھ اور حیرت انگیز انفرادی خصوصیات کا ذکر ہوگا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined