
علامتی تصویر / اے آئی
انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت جیسی نئی ٹیکنالوجیز کے دور میں آپ کتنی آسانی سے سائبر کرائم کے جال میں پھنس سکتے ہیں، اس کا احساس کرنے کے لیے تصور کریں کہ آپ اپنے مقامی اسٹور کی مانوس ویب سائٹ پر جاتے ہیں۔ سب کچھ ایک جیسا نظر آتا ہے — وہی ڈیزائن، وہی برانڈ، وہی انٹرفیس۔ آپ آرڈر دیتے ہیں، رقم کی ادائیگی کرتے ہیں، اور بعد میں ایک چھوٹی سی تفصیل پر غور کرتے ہیں کہ ویب سائٹ ایڈریس میں صرف ایک لیٹر یا حرف مختلف تھا۔ لیکن آپ کی رقم تو گئی۔ اگر آپ خوش قسمت ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ضائع ہونے والی رقم کم ہو، یا اگر آپ کا بینک تیزی سے کام کرتا ہے تو آپ کی رقم واپسی کا امکان ہے۔
لیکن ہر شخص اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا: بہت سے ممالک میں، چوری شدہ رقوم کی وصولی تقریباً ناممکن ہے۔ حالت یہ ہے کہ کچھ ممالک میں، سائبر کرائم کی کارروائیاں اب بھی ’سائبر کرائم‘ کی قانونی تعریف کے تحت واضح نہیں ہیں اور بین الاقوامی سطح پر قانونی تعاون کا فقدان ہے۔ سائبر کرائم تیزی سے پنپ رہا ہے۔ جو کبھی انفرادی حملے ہوتے تھے وہ اب منظم مجرمانہ نیٹ ورکس کے ذریعے چلائے جانے والے آپریشن میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
Published: undefined
نئی ٹیکنالوجیز، بشمول انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت نے مجرموں کے لیے تیز رفتاری سے کام کرنا، پوری دنیا میں متاثرین تک پہنچنا، اور کم سے کم انسانی شمولیت کے ساتھ جرائم انجام دینا آسان بنا دیے ہیں — خود مختار سائبر حملوں اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی جعلی تصاویر سے لے کر بدنیتی پر مبنی سافٹ ویئر اور فشنگ مہمات تک، جہاں متاثرین کو جعلی ویب سائٹس یا ای میلز کے ذریعے پاس ورڈز یا مالی معلومات ظاہر کرنے کے لیے دھوکہ دیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، اربوں چوری شدہ صارف نام اور پاس ورڈ کے امتزاج ڈارک ویب پر سامنے آئے ہیں۔ یہ ڈیٹا نام نہاد ’کریڈینشل اسٹفنگ‘ حملوں میں استعمال کیا جاتا ہے — یعنی ایک ساتھ ہزاروں ویب سائٹس پر خودکار لاگ ان کی کوششیں۔
لہٰذا، دنیا بھر میں انٹرنیٹ اور آن لائن میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال سے سائبر کرائم کا خطرہ بھی غیر معمولی سطح پر بڑھ رہا ہے۔ دہشت گردی، انسانی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ اور منشیات کی اسمگلنگ سمیت جرائم کے ارتکاب کے لیے اطلاعات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان بڑھتے خطرات سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 24 دسمبر 2024 کو نیویارک میں سائبر کرائم سے نمٹنے اور ان کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کے پہلے معاہدے کو منظور کیا تھا اور اب ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں 65 ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔
Published: undefined
دستخط کی تقریب کا اہتمام ویتنام میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کنٹرول (یو این او ڈی سی) کے تعاون سے کیا گیا جس میں اعلیٰ حکام، سفارت کاروں اور ماہرین نے شرکت کی۔ دستخط کیے جانے کے بعد اب مختلف ممالک قانون سازی کے ذریعے اس معاہدے کی توثیق کریں گے۔ یہ معاہدہ 40 دستخط کنندہ ملکوں کی توثیق کے 90 دنوں کے اندر نافذ ہو جائے گا۔
اس معاہدے سے پہلے الیکٹرانک ثبوت کے لیے وسیع پیمانے پر کوئی بھی تسلیم شدہ بین الاقوامی معیار موجود نہیں تھا۔یہ تمام سنگین جرائم کے لیے الیکٹرانک شواہد جمع کرنے، ساجھا کرنے اور استعمال کرنے کا پہلا عالمی فریم ورک ہے۔ دوسرے، سائبر کرائم میں ملوث افراد کو مجرم قرار دینے والا یہ پہلا عالمی معاہدہ ہے، جو آن لائن فراڈ، بچوں کے ساتھ آن لائن بدسلوکی، استحصال اور اس سے متعلقہ مواد سے نمٹے گا۔ تیسرے، اس معاہدہ کے تحت بے تکلف لمحات میں بنائی گئی تصاویر اور ویڈیو مواد کو بغیر اجازت آن لائن نشر کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔علاوہ ازیں، پہلی بار ایک چوبیسوں گھنٹے متحرک رہنے والا نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے جہاں رکن ممالک فوری طور پر ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی تیزی سے بڑھتے ہوئے سائبر کرائم سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک میں استعداد کار کو فروغ دیا جائے گا۔
Published: undefined
امید کی جاتی ہے کہ اس نئے معاہدے سے ایسے وقت میں ڈیجیٹل خطرات سے لڑنے میں مدد ملے گی جب سائبر کرائم سے سالانہ نقصانات ہزاروں ارب ڈالر ہونے کا امکان ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا کہ ٹیکنالوجی نے جہاں بے مثال ترقی کی ہے وہیں اس نے بہت سے خطرات بھی پیدا کیے ہیں۔ آئے روز خاندان دھوکہ دہی کا شکار ہو رہے ہیں، روزگار چھینے جا رہے ہیں اور معیشتوں سے اربوں ڈالر کا فراڈ کیا جا رہا ہے۔ سائبر اسپیس میں کوئی بھی اس وقت تک محفوظ نہیں ہے جب تک کہ سب محفوظ نہ ہوں اور کمزوریاں لوگوں اور اداروں کو کہیں بھی غیر محفوظ بنا سکتی ہیں۔ انہوں نے اس معاہدے کو آن لائن جرائم سے متاثر ہونے والے ہر فرد کی فتح اور تفتیش کاروں اور استغاثہ کے لیے انصاف کی لڑائی میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک واضح راستہ قرار دیا۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے اس معاہدے کو ایک طاقتور اور قانونی طور پر عملی اقدام قرار دیا ہے جو سائبر کرائم کے خلاف اجتماعی دفاع کو مضبوط کرے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ کثیرالجہتی طاقت کی ایک مثال ہے جس کی مدد سے مسائل کے حل تلاش کیے جا سکتے ہیں، اور یہ ایک عہد بھی ہے کہ کوئی بھی ملک سائبر کرائم کے خلاف دفاع میں تنہا نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined