رمضان اسپیشل

دہلی: اوکھلا کے ذاکر نگر میں رمضان کی رات کی بات ہی کچھ اور ہے!

ذاکر نگر کے مقیم فہد نے بتایا کہ یہاں پوری رات زبردست چہل پہل رہتی ہے اور عشاء کی نماز کے بعد تو لوگوں کی تعداد اتنی بڑھ جاتی ہے کہ پیر رکھنے کی جگہ نہیں رہتی۔

<div class="paragraphs"><p>ذاکر نگر اوکھلا کا بازار، تصویر قومی آواز</p></div>

ذاکر نگر اوکھلا کا بازار، تصویر قومی آواز

 

ساتھیوں کے کافی اصرار کے بعد میں نے رمضان میں رات کو اوکھلے کی رونقیں دیکھنے کا ذہن بنایا۔ افطار سے تھوڑی دیر پہلے ذاکر نگر کی ڈھلان پر پہنچا تو دیکھا لوگوں کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ میں نے وہیں ایک عزیز کے گھر پر روزہ کھولا اور بعد میں علاقہ کی رونقیں دیکھنے نکلا۔ اس وقت سڑکوں پر زیادہ بھیڑ نہیں تھی شائد لوگ روزہ کی تھکان کے بعد آرام کرنے لگے تھے۔ میرے لئے یہ موقع غنیمت تھا۔

Published: undefined

جیسے ہی میں ذاکر نگر کی مرکزی سڑک کی جانب نکلا تو پہلے مجھے کھجوروں کی ایک شاندار دوکان نے استقبال کیا جس دوکان پر مختلف کھجوریں شیشے کی مرتبان میں نظر آ رہی تھیں، اس کے برابر میں سکندر شیرمال کی دوکان تھی جن کا دعوی تھا کہ ان کی شیر مال بہترین ہوتی ہیں۔ دوکان پر موجود شخص نے بتایا کہ پہلے یہ شیرمال صرف میرٹھ میں ہی ملتی تھی لیکن اب سب جگہ ملتی ہیں۔ اس دوکان کے ساتھ بہت شاندار زم زم پرفیوم کی دوکان تھی، ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ عطر میں اتنا فائدہ بھی ہے اور اتنی کھپت بھی کہ اتنی شاندار دکان کھولی جا سکتی ہے۔ بہرحال یہاں پر ہر طرح کی خوشبو دستیاب ہیں۔

Published: undefined

ذاکر نگر کی مرکزی سڑک پر مڑتے ہی جو کھانے کی دوکانوں کا حملہ ہوا اس نے کسی کھانے کی اسٹریٹ یعنی فوڈ اسٹریٹ کا خیال تازہ کر دیا۔ ایک طرف شاہی ٹکڑے کی دوکان تو دوسری طرف قریشی کے کباب کی دوکان۔ بڑی مشکل سے کبابوں کی خوشبو کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھا۔ اس کے بعد دہلی کے ذائقے دار کھانوں کی دوکان ڈی ڈی ایف میں مختلف کھانوں کے بننے اور پروسنے کی خوشبو بھی اپنی جانب کھینچتی ہے۔ سامنے پہلوان جی کی دوکان پر بہت طرح کے مٹھائیاں اور بہت ہی ذائقے دار فالودہ ملتا ہے۔

Published: undefined

ذاکر نگر کے مقیم فہد نے بتایا کہ یہاں پوری رات زبردست چہل پہل رہتی ہے اور عشاء کی نماز کے بعد تو لوگوں کی تعداد اتنی بڑھ جاتی ہے کہ پیر رکھنے کی جگہ نہیں رہتی۔ ایک طرف بیکری اور دوکانیں ہیں تو دوسری جانب کھانے کی دوکانیں موجود ہیں۔ اس وقت دہلی کی مشہور نہاری کی دوکان جاوید فیمس نہاری کی دوکان پر تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ کھانے کی دوکانوں کے بیچ ایک خاص دوکان پر نظر پڑی۔ کباب، نہاری، چکن فرائی کی دوکانوں کے بیچ یہاں ایک چھولے کلچے کی دوکان موجود تھی جو اس بات کی علامت تھی کہ یہاں اس کی ڈیمانڈ زبردست ہے۔

Published: undefined

جاوید نہاری کی دوکان کے بعد کپڑے کی دوکانوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں صرف کپڑے ہی نہیں بلکہ ہر طرح کا سامان مل رہا ہے۔ علی برینڈ کی مشہور دوکان کے بعد اختر کرتے کی دوکان پر خوب بھیڑ نظر آرہی ہے۔ علاقہ کی مشہور اور سب سے پرانی کرتے کی دوکان فیشن گیلری پر پہنچنے سے پہلے خواتین کے جوتوں، گھر کو سجانے کے لئے مصنوعی پھولوں اور پودھوں کی دوکانیں نظر آئیں۔ سہسپور سے تعلق رکھنے والے فیشن گیلری کے مالک آفتاب کا کہنا ہے کہ ان کے یہاں ہر قسم کا کرتا ملتا ہے اور ہر معاشی کیٹیگری کے لئے یہاں کرتے دستیاب ہیں۔ یہاں پر تین سو روپے کے کرتے پاجامے سے لے کر چھ ہزار تک کے کرتے موجود ہیں۔

Published: undefined

کسی بازار میں بچوں کے کپڑے نہ ہوں یا خواتین کے بندے، چوڑیاں وغیرہ نہ ہوں تو وہ بازار ہی کیا۔ یہاں ہر دو دوکان کے بعد یا تو خواتین کے بندے وغیرہ فروخت ہوتے نظر آ جائیں گے یا خواتین سے بھری ہوئی چوڑیوں کی دوکان نظر آ جائیں گی۔ بچوں اور خواتین کے کپڑوں کی شاندار دوکانیں یہاں موجود ہیں۔

Published: undefined

یہ عید سے بارہ دن پہلے ذاکر نگر کی رات ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ یا تو خریداری کرنے آ رہے تھے یا کھانے کے ذائقوں کا لطف اٹھاتے نظر آ رہے تھے۔ فہد جو یہاں کے رہنے والے ہیں ان کا کہنا ہے کہ’’ پچھلے کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ یہاں آ نے والوں میں غیر مسلموں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔‘‘ جو بات فہد نے بتائی اس کو میں نے بھی محسوس کیا کہ یہاں کافی مادڑن غیر مسلم لڑکے اور لڑکیاں نظرآ رہی تھیں، جو اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کھانے بھی کھا رہے تھے۔

Published: undefined

بہرحال آخر میں جاوید فیمس نہاری کی دوکان میں نہاری لی اور کھانے کے دوران یہ سوچتا رہا کہ گھروں میں یہ مسلمان سیاسی گفتگو کرتے ہیں اور چاروں طرف پھیلے خوف کی باتیں کرتے ہیں لیکن اس شاہرہ پر ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔ سڑکوں پر جس طرح لوگ مختلف کھانے کھاتے نظر آ رہے ہیں یا تہوار کی تیاری کرتے نظر آ رہے ہیں اس سے تو نہیں لگتا کہ لوگوں کے ذہن میں کسی طرح کا ڈر یا کورونا کا خوف ہے یا غیر مسلموں کے مسلم مخالف بیانات کا اور اس پر مرکزی حکومت کی خاموشی کا۔ لوگ بہت خوش نظر آ رہے ہیں اور ان سڑکوں پر غیر مسلموں کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستان کی روح ابھی زندہ ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined