پریس ریلیز

افغانستان سے علمی ہی نہیں ہمارا صدیوں پرانا تہذیبی اور ثقافتی تعلق ہے: مولانا ارشد مدنی

مولانا ارشد مدنی نے یاد دلایا کہ یہ افغانستان ہی ہے جہاں ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لئے ہمارے اکابرین نے جلاوطن حکومت قائم کی تھی۔

<div class="paragraphs"><p>افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خاں متقی سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی</p></div>

افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خاں متقی سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی

 

تصویر: پریس ریلیز

افغانستان کے وزیرِ خارجہ مولانا امیر خاں متقی کے پس منظر میں میڈیا کے نمائندوں نے جب جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ افغانستان سے ہمارا علمی اور روحانی ہی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ہمارے تہذیبی اور ثقافتی رشتے بھی رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بات یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی جنگِ آزادی سے بھی افغانستان کا ایک خاص رشتہ رہا ہے۔ آج کی نئی نسل ہوسکتا ہے اس بات سے واقف نہ ہو لیکن یہ ایک تاریخ ہے کہ جنگِ آزادی کے دوران دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی ایما پر افغانستان میں ہی ہمارے مجاہدینِ آزادی نے ایک جلاوطن حکومت قائم کی تھی، جس کا صدر راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کو بنایا گیا تھا۔ مولانا برکت اللہ جیسی اہم شخصیت وزیرِ اعظم اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ وزیرِ خارجہ تھے۔

Published: undefined

انہوں نے آگے کہا کہ افغان عوام نے بھی غیر ملکی تسلط سے اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لئے ہمارے اکابرین کا طریقۂ کار ہی اختیار کیا۔ ہم نے اس برطانوی قوم سے طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کی حکمرانی کا سورج غروب نہیں ہوتا، اور افغان عوام نے روس و امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کو دھول چٹا کر آزادی حاصل کی ہے۔ مگر اس میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ اس کے لئے انہوں نے وہی طریقۂ کار اختیار کیا جو ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے اختیار کیا تھا۔

Published: undefined

قابلِ ذکر ہے کہ 1991 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جب افغانستان کا کوئی وفد وزیرِ خارجہ مولانا امیر خاں متقی کی سربراہی میں ہندوستان کے دورے پر ہے۔ اس دورے کے پروگراموں میں دارالعلوم دیوبند کا بھی دورہ شامل تھا۔ اپنے دیوبند دورے کے دوران مولانا امیر خاں متقی نے دارالعلوم سے اپنی نسبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے بار بار اسے مادرِ علمی اور روحانی مرکز کہہ کر مخاطب کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان وزیرِ خارجہ بنیادی طور پر ایک عالمِ دین ہیں اور انہوں نے پاکستان میں اُس مدرسے سے تعلیم حاصل کی ہے جس کا سنگِ بنیاد عظیم مجاہدِ آزادی مولانا حسین احمد مدنیؒ کے ایک شاگرد مولانا عبدالحقؒ نے رکھا تھا۔

Published: undefined

اسی خاص تعلق کی بنا پر دیوبند پہنچنے کے بعد افغانستان کے وزیرِ خارجہ نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین مولانا ارشد مدنی سے خصوصی ملاقات بھی کی۔ میڈیا کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کی شہرت عالمگیر ہے اور یہاں پوری دنیا سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں، ان میں افغانستان کے طلبہ بھی شامل ہیں۔ چنانچہ غیر ممالک سے اور خاص طور سے اسلامی ملکوں سے جو لوگ ہندوستان آتے ہیں وہ دارالعلوم دیوبند کو بھی دیکھنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے وزیرِ خارجہ کا دیوبند دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، تاہم اس کے پیچھے علمی، روحانی، ثقافتی اور تہذیبی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم پرامید ہیں کہ اس دورے سے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ ہندوستان کے وزیرِ خارجہ نے کابل میں ہندوستانی سفارت خانہ کو فعال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلیمی اور تجارتی رشتوں میں بھی مزید تیزی آئے گی۔

Published: undefined

مولانا مدنی نے یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ ہندوستان اور افغانستان کے قریب آنے سے پورے خطے میں امن و استحکام کے قیام میں مدد ملے گی۔ قابلِ ذکر ہے کہ دورے کے دوران ایک اجلاسِ عام بھی ہونا تھا۔ مولانا امیر خاں متقی کو دیکھنے اور سننے کے لئے بڑی تعداد میں لوگ باہر سے بھی آئے تھے، مگر افغانستان کے وفد کے ہمراہ دہلی سے وزارتِ خارجہ کی جو ٹیم آئی تھی اس نے سیکورٹی کا حوالہ دے کر دورہ مختصر کرا دیا، چنانچہ اجلاسِ عام نہیں ہوسکا۔ اس سے لوگوں کو سخت مایوسی ہوئی۔

Published: undefined

دارالعلوم کے دورے سے افغانستان کے وزیرِ خارجہ بہت خوش نظر آئے۔ جس طرح یہاں ان کا والہانہ استقبال ہوا اور مہمان نوازی کی گئی، اس کی ستائش انہوں نے میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بھی کی اور اس کے لئے انہوں نے علماء دیوبند، تمام طلبہ اور عوام کا شکریہ بھی ادا کیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined