پریس ریلیز

جمعیۃ علماء ہند نے دہلی فساد زدگان کو تعمیر نو اور مرمت شدہ مکانات سپرد کیے

مولانا مدنی نے کہا کہ ہم اکثر یہ باتیں کہتے رہے ہیں کہ فساد سے کسی مخصوص فرقہ، مذہب یا فرد کا نہیں بلکہ پورے ملک کا نقصان ہوتا ہے، اس لئے فرقہ پرست عناصر پر سخت نظر رکھی جانی چاہیے

تصویر پریس ریلیز
تصویر پریس ریلیز 

نئی دہلی: گزشتہ فروری ماہ میں دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں جو بھیانک فساد ہوا اس میں جانی ومالی نقصان تو اپنی جگہ بڑی تعداد میں املاک اور مذہبی عبادت گاہوں کو بھی نقصان پہنچا تھا، فسادیوں نے مکانوں کے ساتھ ساتھ کئی مسجدوں میں بھی آگ لگادی تھیں، جمعیۃ علماء ہند اول دن سے متاثرہ علاقوں میں امداد اور باز آباد کاری کے کام میں مصروف ہے اسی ضمن میں جن گھروں کو جلایا گیا تھا اور جن مساجد کو دانستہ نقصان پہنچایا گیا تھا باضابطہ طور پر سروے کر کے جمعیۃ علماء ہند نے ان کی تعمیر نو اور مرمت کا اعلان کیا تھا۔

Published: undefined

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی نے اس وقت اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جمعیۃعلماء ہند بلا لحاظ مذہب وملت متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی مدد اور باز آبادکاری کا فریضہ انجام دے رہی ہے، جن گھروں کو آگ سے شدید نقصان پہنچا ہے اور جو مرمت کے بغیر رہنے کے لائق نہیں رہ گئے ہیں جمعیۃعلماء ہند ان کی مرمت کا فریضہ بھی انجام دے گی، مولانا مدنی کے اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جمعیۃعلماء ہندکے اراکین اور رضاکار متاثرہ علاقوں میں مصروف کار ہوگئے اسی ضمن میں آج کھجوری خاص میں 19، کراول نگر میں 17 گڑھی مہڈھو 16 مکانات کی تعمیر نو اور مرمت کا کام مکمل کرا کر مالکان کے حوالے کردیا گیا ہے۔ کھجوری خاص میں ہی مسجد فاطمہ کو آتش زنی سے شدید نقصان پہنچا تھا اس کی بھی مرمت اور تذئین کا مکمل ہوگیا ہے اور اب اس میں باقاعدہ طور پر نماز ادا کی جا رہی ہے، متاثرہ علاقوں میں دیگرمقامات پر بھی نقصان پہنچائے گئے گھروں کی مرمت کا کام جاری ہے۔

Published: undefined

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے اس حوالہ سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اللہ کا شکر ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کے ذریعہ پہلے مرحلہ میں جلے ہوئے مکانات کی تعمیر نو اور مرمت کا کام مکمل ہوا، اور انہیں ان کے مالکان کے حوالے بھی کردیا گیا، تاکہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ قدرسکون واطمینان کے ساتھ اس میں رہ سکیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعیۃعلماء ہند امداد اور فلاح کا کام مذہب دیکھ کر نہیں کرتی بلکہ انسانیت کی بنیاد پر یہ کام کرتی ہے انہوں نے کہا کہ دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں ہونے والا فساد انتہائی بھیانک اور منصوبہ بند تھا، اس میں پولس اور انتظامیہ کا رول مشکوک رہا یہی وجہ ہے کہ متاثرین میں اقلیتی فرقہ کی تعداد ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ ہے جو جانی ومالی نقصان ہوا اس کے بارے میں اخبارات میں بہت کچھ آچکا ہے، لیکن جس طرح مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا اورگھروں کو جلایا گیا وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ فساد اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ اس کی پہلے سے منصوبہ بندی ہوئی تھی۔

Published: undefined

مولانا ارشدمدنی نے آگے کہا کہ ہر فساد میں مٹھی بھرفرقہ پرست طاقتیں اچانک نمودار ہوتی ہیں اور فساد برپا کرکے منظر عام سے غائب ہوجاتی ہیں دہلی کے حالیہ فساد میں بھی یہی ہوا، جہاں دہائیوں سے ہندو اور مسلمان پیارومحبت کے ساتھ رہ رہے تھے فساد برپا کرایا گیا اور پولس وانتظامیہ کی نااہلی کے نتیجہ میں دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک بھیانک شکل اختیارکرلی، مولانا مدنی نے انتہائی تعجب کے ساتھ کہا کہ ملک کی دارالحکومت دہلی میں حکومت کی ناک کے نیچے تین دن تک مسلسل قتل وغارت گری، لوٹ اور آتش زنی کا بھیانک سلسلہ جاری رہا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے چین کی نیند سوتے رہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ملک وانتظامیہ کے لوگ چاک وچوبند ہوتے اور ایمانداری سے اپنا فرض ادا کرتے تو اس بھیانک فساد کو دوسرے علاقوں میں پھیلنے سے روکا جاسکتا تھا اور تب اتنے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان بھی نہ ہوتا۔

Published: undefined

مولانا مدنی نے مزید کہا کہ فرقہ پرست عناصرنے منصوبہ بندطریقہ سے ایک گروہ کی شکل میں مسلم آبادیوں پر حملہ آور ہوئے اور بے خوف ہوکر انہوں نے دکانوں کو لوٹا اور گھروں کا جلایا، فساد میں ہلاک شدگان کی تعداد 53 بتائی جاتی ہے جن میں محض 13غیرمسلم ہیں اس سے مسلمانوں کا جو جانی نقصان ہوا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ منصوبہ بند فساد کی ذمہ داری سے حکومت بچ نہیں سکتی، ہمارا ہزاروں بارکا تجربہ ہے کہ فساد ہوتا نہیں ہے بلکہ کرایا جاتاہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں کہیں بھی فساد ہو وہ فساد نہیں بلکہ پولیس ایکشن ہوتا ہے، دہلی فساد میں بھی پولس کا یہی کردار ہے اور تمام حکومتوں میں ایک چیز جو مشترک نظرآتی ہے کہ حملہ بھی مسلمانوں پر ہوتا ہے اورمسلمان مارے بھی جاتے ہیں اور انہی کے مکانات و دکان کو جلایا جاتا ہے اور انہی پر سنگین دفعات لگاکر گرفتار بھی کیا جاتاہے۔

Published: undefined

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں پر دوہری قیامت توڑی جارہی ہے ایک طرف تو اس فساد میں سب سے زیادہ وہی مارے گئے ان کی دوانوں اور گھروں کو نقصان پہنچا اور اب تفیش کے نام پر یکطرفہ طور پر انہی کو ملزم بنادیا گیا ہے انہوں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر کہا کہ قانونی کارروائی کے نام پر مسلمانوں کو سبق سیکھانے کا خطرناک کھیل چل رہا ہے، قانون انصاف بالائے طاق رکھ کر ایک ہی فرقہ کے لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں اور فساد کا سارا الزام انہی کے سرمنڈھ دیا گیا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند نے ملک کے ممتاز وکلاء پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیدیا ہے جس کے ذریعہ ایسے تمام لوگوں کو مفت قانونی امداد فراہم کی جائے گی جنہیں غلط طریقہ سے فساد میں ملوث کیا گیا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ متاثرین کو انصاف دلائے بغیر جمعیہ علماء ہند چین سے نہیں بیٹھے گی۔

Published: undefined

مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ ہم اکثر یہ باتیں کہتے رہے ہیں کہ فساد سے کسی مخصوص فرقہ، مذہب یا فرد کا نہیں بلکہ پورے ملک کا نقصان ہوتا ہے، اس لئے فرقہ پرست عناصر پر سخت نظر رکھی جانی چاہیے مگر افسوس صاحبان اقتدارکی آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں، بلکہ افسوسناک بات تویہ ہے کہ اقتدارمیں شامل بہت سے لوگ ان عناصرکی پشت پناہی کرتے ہیں اس وجہ سے پولیس اور انتظامیہ کے لوگ بھی غیر جانبداری سے کام نہیں کرتے اپنے فرض سے دانستہ کوتاہی برتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ فرقہ پرست عناصرکے ساتھ کھڑے نظرآتے ہیں جیسا کہ دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں فساد کے دوران ہوا۔ قابل ذکر ہے کہ شمال مشرقی دہلی کے فساد متاثرہ علاقے میں پہلے دن سے جمعیۃ علماء صوبہ دہلی کی ریلیف ٹیم بغیر کسی مذہبی تفریق کے برابر کام کررہی ہے، مکانات ومساجد کی تعمیرنو ومرمت کے کام بھی جمعیۃعلماء صوبہ دہلی کی پوری ٹیم مصروف کار ہے۔ ریلیف ٹیم میں مفتی عبدالرازق ناظم اعلیٰ صوبہ دہلی، قاری ساجد فیضی، ڈاکٹر شمس عالم، قاری دلشاد قمر، قاری اسرارالحق اور مفتی عبدالقدیر قاسمی وغیرہ شامل ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined

,
  • گزشتہ 10 سالوں میں بنے کئی قوانین یا قوانین میں کی گئیں ترامیم امتیازی سلوک کی واضح مثال، آئیے کچھ قوانین پر ڈالیں نظر