پریس ریلیز

یکساں سول کوڈ کا نفاذ کسی بھی صوبائی حکومت کے اختیار میں نہیں، یہ آئین کی بالادستی ختم کرنے کی کوشش: مولانا ارشد مدنی

اتراکھنڈ اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کی منظوری کے تقریباً ایک سال بعد گزشتہ 27 جنوری 2025 کو وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں باضابطہ طور پر نافذ کردیا گیا تھا۔

<div class="paragraphs"><p>یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی)، علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی)، علامتی تصویر آئی اے این ایس

 

نئی دہلی: اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے داخل کی گئی اہم پٹیشن میں آج اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران سینئر ایڈوکیٹ نے عدالت سے کہا کہ اس معاملے میں اتراکھنڈ حکومت نے اپنا اعتراض داخل کر دیا ہے، جبکہ مرکزی حکومت نے اب تک اعتراض داخل نہیں کیا ہے۔ نیز اتراکھنڈ حکومت کے اعتراض کا جواب دینے کے لیے انہیں کچھ وقت درکار ہے۔ چیف جسٹس اتراکھنڈ ہائی کورٹ جی نریندر اور جسٹس آلوک مہرا نے سینئر ایڈوکیٹ کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت 23 ستمبر کو کیے جانے کا حکم جاری کیا۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو بھی حکم دیا کہ وہ اگلی سماعت سے قبل جمعیۃ علماء ہند و دیگر کی پٹیشن پر اپنا جواب داخل کرے۔ مرکزی سرکار کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ کنو اگروال نے عدالت سے جواب داخل کرنے کے لیئے وقت طلب کیا جسے عدالت نے منظور کرلیا اور عدالت نے کہا کہ معاملہ ملتوی کیا جارہا ہے، کل ججوں کا نیا روسٹر (فہرست) آ جائے گا۔

Published: undefined

اس سے قبل کی سماعت پر سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے بینچ کے سامنے دو اہم باتیں رکھی تھیں۔ پہلی یہ کہ لسٹ تھری انٹری 5 کے تحت کسی صوبائی حکومت کو یکساں سول کوڈ بنانے اور اسے نافذ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہاں تک کہ دفعہ 44 بھی کسی صوبائی حکومت کو اس طرح کی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتی۔ سبل نے دوسری بنیادی بات یہ کہی تھی کہ جو قانون لایا گیا ہے اس سے شہریوں کے ان بنیادی حقوق کی صریحا خلاف ورزی ہوتی ہے جو انہیں آئین کی دفعہ 14۔19۔21 اور 25 میں دیئے گئے ہیں۔

Published: undefined

قابل ذکر ہے کہ اتراکھنڈ اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کی منظوری کے تقریبا ایک سال بعد گزشتہ 27 جنوری 2025 کو وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں باضابطہ طور پر نافذ کردیا گیا تھا۔ اس طرح اتراکھنڈ یکساں سول کوڈ نافذ کرنے والی ملک کی پہلی ریاست بن گئی۔

Published: undefined

مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے اس قانون کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں چیلنچ کیا ہے جس پر آج دوسری سماعت عمل میں آئی۔ آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا مدنی نے کہا کہ آئین، جمہوریت اور قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے جمعیۃ علماء ہند نے عدالت کا رخ اس امید کہ ساتھ کیا ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی قانون منظور نہیں جو شریعت کے خلاف ہو۔ مسلمان ہر چیز سے سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن اپنی شریعت اور مذہب سے کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا ہے۔ موجودہ حکومت یکساں سول کوڈ ایکٹ لا کر مسلمانوں سے وہ حقوق چھین لینا چاہتی ہے جو اسے ملک کے آئین نے دیے ہیں کیونکہ ہمارے عقیدہ کے مطابق جو ہمارے عائلی قوانین ہیں وہ انسان کے بنائے ہوئے نہیں ہیں۔ وہ قرآن مجید اور احادیث سے ماخوذ ہیں جو لوگ کسی مذہبی پرسنل لاء پر عمل نہیں کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے ملک میں پہلے ہی سے ایک اختیاری سول کوڈ موجود ہے، تو پھر یونیفارم سول کوڈ کی کیا ضرورت؟

Published: undefined

مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں ایک سیکولر آئین کے موجود رہتے ہوئے جس طرح یہ قانون لایا گیا وہ جانبداری، امتیاز اور تعصب کا مظہر ہی نہیں آئین کی بعض دفعات کا حوالہ دے کر جس طرح قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا گیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی سماجی اور مذہبی شناخت کو مجروح اور ختم کرنے کی غرض سے ہی یہ قانون وضع کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین نے اقلیتوں کو بھی خصوصی اختیارات دیے ہیں مگر ان کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ یہی نہیں عام شہریوں کو بھی آئین میں بنیادی حقوق فراہم کئے گئے ہیں، چنانچہ یہ قانون شہریوں کے بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امید افزا بات یہ ہے کہ کچھ انصاف پسند غیر مسلموں نے بھی اس کے خلاف عرضیاں داخل کی ہیں جس میں انہوں نے بھی امتیاز، تعصب اور بنیادی حقوق کا معاملہ اٹھایا ہے، اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ 23 ستمبر کو اس پر نہ صرف ایک مثبت بحث ہوگی بلکہ عدالت اس پر اسٹے لگا دے گی، چونکہ اس طرح کے قانون سے آئین کی بالادستی ہی نہیں مجروح ہوئی ہے بلکہ شہریوں کے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق پر بھی گہری ضرب لگی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined