پریس ریلیز

وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا عبوری حکم خوش آئند لیکن حتمی ریلیف کا انتظار: امیر جماعت اسلامی ہند

سعادت اللہ حسینی نے اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ عدالت نے کلکٹرز اور نامزد افسران کو دیے گئے وہ وسیع اختیارات ختم کر دیے ہیں جن کے تحت وہ عدالتی فیصلے سے قبل ہی وقف املاک کو سرکاری زمین ٹھہرا سکتے تھے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر بشکریہ جماعت اسلامی ویب سائٹ</p></div>

فائل تصویر بشکریہ جماعت اسلامی ویب سائٹ

 

نئی دہلی: امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے وقف ترمیمی قانون سے متعلق سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’عدالت نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 میں موجود بڑے آئینی نقائص کو بے نقاب کیا ہے اور حکومت کی جانب سے کلکٹرس و سرکاری افسران کے ذریعے وقف املاک میں بے جا تصرف کی کوششوں پر قدغن لگائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مسلمان عدالت کی جانب سے دی گئی اس عبوری راحت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں خاص طور پر وقف املاک میں انتظامیہ کی بے جا مداخلت کے خلاف تحفظ اور واقف کے لیے 5 سال تک باعمل مسلمان رہنے کی نا قابل فہم شرائط کی معطلی ایک مناسب اقدام ہے تاہم اس سب کے باوجود  ہمارے کئی اہم خدشات اور تحفظات اب بھی باقی ہیں، خاص طور پر ’وقف بائے یوزر‘ سے متعلق عبوری فیصلہ کافی تشویشناک ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالت اعظمی وقف بائے یوزر پر دیے گئے موجودہ عبوری موقف پر ازسرنو غور کرے گی اور اپنے حتمی فیصلہ میں وقف بائے یوزر کو پوری طریقہ سے بحال کرے گی۔  مکمل انصاف کے حصول تک ہم اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘‘

Published: undefined

سید سعادت اللہ حسینی نے مزید کہا کہ ’’عدالت نے کلکٹرز اور نامزد افسران کو دیے گئے وہ وسیع اختیارات ختم کر دیے ہیں جن کے تحت وہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی وقف املاک کو سرکاری زمین قرار دے سکتے تھے۔ یہ فیصلہ ہمارے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ ترمیمی ایکٹ انتظامیہ کو وہ اختیارات دیتا ہے جو عدلیہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں، اور یہ آئین کے بنیادی اصول، یعنی اختیارات کی علیحدگی، کی خلاف ورزی تھی۔ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کی جانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔ اسی طرح واقف کے لیے پانچ سال تک بس عمل مسلمان رہنے کی شرط کی معطلی بھی عدالت کی جانب سے ہمارے مؤقف کی تائید ہے۔ ہم مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ شرط امتیازی،ناقابل فہم اور ناقابلِ عمل ہے۔ اس شق کے حوالے سے عدلیہ کی مداخلت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے غیر آئینی قوانین، عدالتی جانچ کی کسوٹی پر پورے نہیں اُتر سکتے۔ ہمیں امید ہے کہ حتمی فیصلے میں اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔‘‘

Published: undefined

زیرِ التوا تنازعات کے حوالے سے امیر جماعت نے کہا کہ ’’عدالت نے حکام کو اس وقت تک محصولات کے ریکارڈ میں تبدیلی یا وقف املاک کو غیر تسلیم شدہ قرار دینے سے روک دیا ہے۔ یہ فیصلہ اوقاف کے تحفظ کے نقطہ نظر سے اہم ہے اور اوقاف کے نظام کو بغیر قانونی تقاضوں کو پورا کیے کمزور کرنے کی کوششوں کو ناکام اور بے نقاب کرتا ہے۔‘‘ تاہم جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ کئی اہم مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔ جناب حسینی نے کہا کہ ’’وقف بایو کی شق کا خاتمہ اب بھی ہزاروں تاریخی مساجد، قبرستانوں اور عیدگاہوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جو اوقاف صدیوں سے بغیر رسمی دستاویزات کے قائم اور برقرار ہیں۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں تمام مذاہب کے بے شمار مذہبی ادارے بغیر دستاویزات کے برسوں سے موجود ہیں، وقف بائے یوزر کا اصول بہت ضروری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت ہمارے اس موقف  کو اپنے حتمی فیصلے میں تسلیم کرے گی۔‘‘

Published: undefined

امیر جماعت نے تمام اوقافی جائیدادوں کی نئے قانون کے تحت رجسٹریشن کے لیے دی گئی مختصر مدت کو بھی غیر عملی قرار دیا، آپ نے فرمایا کہ ’’اتنے بڑے ملک میں جہاں بہت سے ادارے انتہائی قدیم ہیں، دیہی علاقوں میں ہیں اور جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں ان کے لیے مختصر مدت میں رجسٹریشن کی شرط غیر حقیقی ہے۔ اس سے بےجا ہراسانی اور حقیقی اوقاف کو کمزور کرنے کا راستہ کھلے گا۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت اس مسئلے کا بھی حل نکالے گی۔‘‘

Published: undefined

عدالت کی جانب سے وقف اداروں میں غیر مسلم ممبران کی نامزدگی پر عبوری فیصلہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’’عدالت کا یہ فیصلہ کہ وقف بورڈز اور سنٹرل وقف کونسل میں مسلم اکثریت کا ہونا ضروری ہے مناسب ہے، لیکن غیر مسلم ممبران کی نامزدگی کی منطق اپنے آپ میں غلط ہے۔ یہ دعویٰ یا بہانہ کہ بہتر انتظامی کارکردگی یا ریاستی نگرانی صرف غیر مسلم ارکان کے ذریعے ہی ممکن ہے، نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ امتیازی بھی ہے۔ کسی مذہبی ادارے میں غیر متعلقہ افراد کو شامل کرنا کمیونٹی پر عدم اعتماد کا اظہار اور بے مداخلت کے مترادف ہے۔ دوسرے مذاہب کے اداروں پر ایسی شرائط لاگو نہیں ہوتیں، لہٰذا یہ شق ہمارے لیے ناقابلِ قبول ہے۔‘‘

Published: undefined

بیان کے آخر میں امیر جماعت نے زور دیا کہ یہ صرف ایک عبوری فیصلہ ہے اور قانونی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 سنگین آئینی خامیوں کا شکار ہے۔ ان میں سے بعض کو اس عبوری فیصلے نے واضح کر دیا ہے، ہمیں امید ہے کہ دیگر مسائل کو حتمی فیصلہ میں حل کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی ہند دیگر انصاف پسند تنظیموں واداروں کے ساتھ مل کر اس غیر آئینی قانون کے مکمل خاتمے تک قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔ ہم حکومت سے ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں کہ وہ آئینی اصولوں اور مسلمانوں کے تحفظات کی روشنی میں اس قانون کو فوری طور پر واپس لے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined

,
  • اسٹوڈنٹ ویزا پر ماسکو گئے پنجابی نوجوان کو روسی فوج نے جبراً جنگ میں دھکیل دیا، 12 ستمبر کو بھیجا تھا آخری ’وائس میسج‘

  • ,
  • ’ایک گھر میں 4271 ووٹرس، یہ گھر ہے یا ایک پورا انتخابی حلقہ؟‘ ووٹ چوری کے نئے ثبوت پر کانگریس کا سوال