سیاسی

انتہائی حساس مسائل پر بحث سے کیوں بھاگ رہی حکومت؟... نواب علی اختر

اگر حکومت کا دامن دغدار نہیں ہے تو اسے اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ تسلیم کرکے فوری جانچ کرانا چاہئے کیونکہ لوگوں کے ڈیٹا کی حفاظت ان کی رازداری اور سائبر سیکورٹی بہت اہم مسئلہ ہے۔

پارلیمنٹ کی فائل تصویر یو این آئی
پارلیمنٹ کی فائل تصویر یو این آئی 

پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے پہلے دو ہفتے پیگاسس جاسوسی معاملے، کسان تحریک اور مہنگائی کے سلسلے میں حکومت کی ضد اور اپوزیشن کے اصرار کی وجہ سے تعطل برقرار ہے۔ مانسون اجلاس 19 جولائی کو شروع ہوا تھا اور اپوزیشن پہلے دن سے پیگاسس جاسوسی معاملے کی جانچ کرانے، بے لگام مہنگائی سے عوام کو راحت دینے کی مانگ اور کسان تحریک کی حمایت کے حوالے سے حکومت سے زبانی جمع خرچ سے اوپر اٹھ کرعملی اقدامات کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے مگر حکومت اپنی ہٹ دھرمی کو ترک کرنے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے دونوں ایوان میں کام کاج نہیں ہو رہا ہے۔ موجودہ وقت میں ملک اور عوام کو درپیش انتہائی اہمیت کے حامل اور سنگین نوعیت کے مسائل پر حکومت کی طرف سے حسب وعدہ اجلاس میں تبادلہ خیال کیا جانا چاہئے۔

Published: undefined

پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے آغاز سے قبل حکومت کی جانب سے کل جماعتی اجلاس طلب کرکے ایوان کی کارروائی پرسکون انداز میں چلانے کے لیے اپوزیشن سے تعاون مانگا گیا تھا۔ ساتھ ہی حکمرانوں یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ تمام اہمیت کے حامل مسائل پر ایوان میں مباحث کے لیے حکومت تیار ہے۔ تاہم حکومت کے رویئے سے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ اپنے مقاصد کو ہی ایوان میں پایہ تکمیل کو پہنچانا چاہتی ہے اور اپوزیشن کی جانب سے پیش کئے جانے والے عوامی اہمیت کے حامل مسائل پر مباحث سے بچتے ہوئے ملکی مسائل سے فرار اختیار کیا جا رہا ہے۔ مانسون اجلاس میں ابھی تقریباً ڈیڑھ ہفتے کا وقت باقی ہے لیکن حکومت اپوزیشن اور کسانوں کے سوالات کے جواب دینے کے لیے تیار نظر نہیں آرہی ہے۔

Published: undefined

زراعت پسند ملک میں کسانوں کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ طویل عرصہ سے کسان مرکز کے تین نئے زرعی قوانین کو واپس لئے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن حکومت ہر مسئلہ کی طرح کسانوں کی تحریک سے بھی اپنے ڈھنگ سے نپٹنے میں مصروف ہے اور مسائل کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے کے لیے بھی تیار نظر نہیں آتی۔ مرکزی حکومت کی نظر میں کسان کتنے اہم ہیں، اس بات کا اندازہ مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے بیان سے ہوجاتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ احتجاج کرنے والے موالی ہیں، کسان نہیں۔ 2014 کے بعد سے اب تک تقریباً نصف درجن تحریک چلائی گئی ہیں مگر طرح طرح ہتھکنڈے استعمال کرکے ان سب کو کچل کر انسانی حقوق کو سلب کیا جاتا رہا ہے۔

Published: undefined

حکومت اکثریت کے زعم میں مبتلا ہے اور اپنی طاقت کے بل پر کسی کے احتجاج کی پرواہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ جو کچھ بھی وہ فیصلے کرے اسے پورا ملک آنکھ بند کرکے خاموشی سے قبول کرے تاہم جمہوریت میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو سبھی گوشوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگا تبھی ملک اور اس کے عوام کی ترقی کی ضمانت دی جاسکتی ہے ورنہ حکومتیں آتی اور جاتی رہیں گی، ملک اور عوام کے مسائل جوںکہ توں برقرار رہیں گے اوراس کے باوجود اگر کوئی ہندوستان کو ’وشوگرو‘ بنانے کا نعرہ لگائے تو یہ سیاسی مفاد پرستی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ حکومت آخر پیگاسس جاسوسی معاملے کی جانچ کرانے سے کیوں بھاگ رہی ہے؟ اگر حکومت کا دامن دغدار نہیں ہے تو اسے اپوزیشن کا مطالبہ تسلیم کرکے فوری جانچ کرانا چاہئے کیونکہ لوگوں کے ڈیٹا کی حفاظت ان کی رازداری اور سائبر سیکورٹی بہت اہم مسئلہ ہے۔

Published: undefined

دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے اسرائیل کی سرویلانس کمپنی این ایس او گروپ کے سافٹ ویئر پیگاسس پر صحافیوں، سماجی کارکنان، سیاستدانوں، وزراء اور اعلیٰ سرکاری افسران کے فون کی جاسوسی کا دعویٰ کیا ہے۔ اپوزیشن اس معاملے پر بحث اور جانچ کا مطالبہ کر رہا ہے اور اس نے حکومت سے واضح کرنے کو کہا ہے کہ کیا پیگاسس سافٹ ویئر حکومت نے خریدا ہے۔ اس معاملے پر حکومت بحث سے بھاگ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ 28 جولائی کو ہونے والی انفارمیشن اور ٹیکنالوجی پر پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ میں داخلہ اور آئی ٹی وزارت کے افسران شامل نہیں ہوئے۔ ششی تھرور کی قیادت والی آئی ٹی اسٹینڈنگ کمیٹی میں پرامن بات چیت ہوتی ہے، کئی بارکمیٹی میں اس لئے معاملہ جاتا ہے کہ بات چیت کے ذریعہ اسے حل کرلیا جائے۔ اگر وہاں سے بی جے پی کے ایم پی واک آؤٹ کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ (بات چیت کے لیے) بلکل بھی تیار نہیں ہیں، نہ وہ اسٹینڈنگ کمیٹی میں اور نہ ہی پارلیمنٹ میں تیار ہیں۔

Published: undefined

کسی موضوع پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہونا، اسٹینڈنگ کمیٹی سے واک آؤٹ جیسے قدم تشویشناک ہیں۔ اس طرح تو پارلیمنٹ کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا۔ پیگاسس جاسوسی معاملہ انتہائی سنگین اور حساس اہمیت کا حامل مسئلہ ہے اس لئے پارلیمنٹ میں اس پر مباحث ہونا چاہئے۔ حکومت نے اس اہم ترین مسئلہ پر ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے اور نہ ہی کوئی وضاحت کی ہے۔ پیگاسس جاسوسی پر ایک مبہم سا جواب دیتے ہوئے حکومت بری الذمہ ہونا چاہتی ہے یا پھر اس مسئلہ سے ملک اور عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ پورا اپوزیشن اس مسئلہ پر حکومت سے چبھتے ہوئے سوال پوچھ رہا ہے اور شاید مودی حکومت ان سوالات کے جواب بھی دینے کی حالت میں نہیں ہے یا پھر وہ جواب دینا ہی نہیں چاہتی۔

Published: undefined

ہندوستان میں سیاسی قائدین، صحافیوں، وزراء اور ججوں وغیرہ تک کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔ یہ کوئی غیر اہم مسئلہ نہیں ہے۔ جاسوسی کسی بھی فرد کی رازداری میں غیر مجاز مداخلت ہے۔ اس پر بھی اپوزیشن چاہتا ہے کہ پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث ہو۔ حکومت ہر سوال کا اطمینان بخش جواب دے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ حکومت کے رویئے سے مایوس اپوزیشن نے صدر جمہوریہ کو ایک مکتوب روانہ کرکے حکومت کو ہدایت دینے کا مطالبہ کیا ہے کہ ان مسائل پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ درجنوں کسان اپنے احتجاج کے دوران فوت ہوئے ہیں لیکن حکومت کو ان کی پرواہ نہیں ہے اور پیگاسس کے ذریعہ جاسوسی کی گئی ہے اور اس پر بھی حکومت مباحثہ کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔

Published: undefined

پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے سوالات کے جواب دینے اور اہمیت کے حامل مسائل پر مباحثہ کے لیے آگے آنے کی بجائے بی جے پی عوام کو گمراہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے بی جے پی ارکان پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ وہ عوام کے درمیان جائیں اور یہ بتائیں کہ کانگریس اور دوسری اپوزیشن پارٹیاں پارلیمنٹ میں کورونا اور ٹیکہ کاری جیسے مسائل پر مباحثہ کا موقع نہیں دے رہی ہیں۔ یہ در اصل عوام کو اصل مسائل سے گمراہ کرنے کی کوشش ہے اور پارلیمنٹ اور اپوزیشن کے چبھتے ہوئے سوالات سے راہ فرار ہے۔ حکومت کو پارلیمنٹ اور اپوزیشن کا سامنا کرنا چاہئے اور جو مسائل ہیں ان پر اپنا موقف واضح کرنا چاہئے۔ اسرائیلی جاسوسی سافٹ وئیر کے ذریعہ ہندوستان میں بھی بے شمار افراد کی جاسوسی اور ان کے فون ٹیپ کئے جانے کے سنگین انکشافات میڈیا اداروں کی تحقیقات میں ہوئے ہیں۔

Published: undefined

اس مسئلہ پر حکومت دیگر تمام اہم مسائل کی طرح خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی واضح بیان نہیں دیا ہے۔ نہ اس کی توثیق ہوئی ہے اور نہ ہی حکومت تردید کر رہی ہے۔ اس میں خود وزیر اعظم یا وزیر داخلہ پوری وضاحت اور ذمہ داری کے ساتھ بیان دیں۔ ضرورت پڑنے پر تحقیقات کا اعلان کیا جائے۔ اپوزیشن اور عوام کو خاص طور پر صحافتی حلقوں کو مطمئن کیا جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined