سیاسی

تری پورہ میں مسلم مخالف تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کب ہوگی؟... سہیل انجم

بائیں بازو نے جس طرح ریاست میں پرامن انداز میں حکومت کی اور عوام میں بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کی بی جے پی کی حکومت اسے نیست و نابود کر رہی ہے۔

تصویر بشکریہ بی بی سی
تصویر بشکریہ بی بی سی 

غیر سرکاری اطلاعات اور سوشل میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق شمال مشرقی ریاست تری پورہ میں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے کارکنوں کی طوفان بدتمیزی میں اب تک ایک درجن سے زائد مسجدوں کو نقصان پہنچ چکا ہے۔ مسلمانوں کی متعدد دکانوں اور مکانوں پر بھی حملے ہوئے ہیں۔ ان کی ریلیوں میں اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز اور قابل اعتراض نعرے لگائے گئے ہیں۔ جمعیۃ علما کی ریاستی شاخ کی جانب سے پولیس میں شکایت کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج کی گئی ہے۔ لیکن تادم تحریر صرف ایک شخص کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔

Published: undefined

پولیس کی جانب سے مسجدوں کو نقصان پہنچنے کی خبروں کی تردید کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ 26 اکتوبر کو نکلنے والی ریلی میں مسجد کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر متعدد تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہیں جن میں عمارتوں کو جلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ پتہ نہیں چل پا رہا ہے کہ وہ مسجد ہیں یا کوئی اور عمارت۔ ایک تصویر میں چند مسلمان قرآن مجید کے جلے ہوئے اوراق ہاتھوں میں لے کر دکھا رہے ہیں۔ جبکہ ایک اور ویڈیو تیزی سے وائرل ہوا ہے جس میں ایک جلوس کے آگے آگے چل رہے چند خاکی پوش بڑے پرجوش انداز میں جے شری رام کے نعرے لگا رہے ہیں۔

Published: undefined

پولیس کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر فیک ویڈیوز پوسٹ کی جا رہی ہیں۔ نشریاتی ادارے انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق خاکی پوشوں کی مذکورہ ویڈیو 2018 سے ہی گردش میں ہے۔ یعنی یہ ایک پرانی ویڈیو ہے۔ ادھر پولیس کی جانب سے یہ تو کہا جا رہا ہے کہ 26 اکتوبر کو نکلنے والی ریلی میں مسجد کو نقصان نہیں پہنچا، حالانکہ مین اسٹریم میڈیا کی بعض ویب سائٹس میں اس کو نقصان پہنچے کی خبریں ہیں۔ لیکن اور دوسرے واقعات کے سلسلے میں پولیس خاموش ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں جو بتاتی ہیں کہ حالات کتنے سنگین ہیں۔ پولیس سوشل میڈیا پر اس قسم کی تفصیلات پیش کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی بات بھی کر رہی ہے۔

Published: undefined

پولیس کی جانب سے یہ تو کہا ہی جائے گا کہ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے اور یہ کہ حالات پرامن ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ مسجدوں اور مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حملوں کے کئی واقعات پیش آئے ہیں اور وہ مسلمان جو انتہائی قلیل تعداد میں قبائلیوں اور ہندووں کی آبادی کے درمیان رہائش پذیر ہیں، بہت زیادہ خوف زدہ ہیں۔ جو گزشتہ جمعہ گزرا ہے اس روز پولیس کو یہ اندیشہ تھا کہ مسلمانوں کی جانب سے ان حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔ لہٰذا اس نے جمعیۃ علما کے ریاستی ذمہ داروں کو بلا کر ان سے بات کی اور ان سے اپیل کی کہ وہ لوگ امن و امان کو یقینی بنانے کی کوشش کریں اور مسلمانوں کی جانب سے کوئی مظاہرہ نہ کیا جائے۔ لہٰذا جمعیۃ کے ذمہ داروں نے علاقے کا دورہ کرکے مسلمانوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔

Published: undefined

حالانکہ مسلمان تو پہلے سے ہی پرامن تھے۔ ان کی اکثریت غریب ہے۔ ریاست میں ان کی آبادی بھی زیادہ نہیں ہے۔ وہ کل آبادی کا نو یا دس فیصد ہیں۔ وہ بیچارے کوئی ہنگامہ یا کوئی مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اور پھر ایسے حالات میں جبکہ ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے اور یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ جہاں جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں شرپسندوں کو پوری چھوٹ ملی ہوئی ہے اور وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔

Published: undefined

بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے دوران پنڈالوں کو نقصان پہنچانے کے جو واقعات پیش آئے تھے ان پر وہاں کی حکومت نے انتہائی سخت کارروائی کی اور چار ہزار افراد کے خلاف رپورٹ درج کی۔ تقریباً چار سو افراد کو گرفتار کیا گیا یا حراست میں لیا گیا۔ ہلاک شدگان میں ہندووں کے علاوہ مسلمان بھی ہیں۔ لیکن اس کی آڑ میں بنگلہ دیش سے متصل ریاست تری پورہ میں مسلمانوں کے خلاف جو طوفان برپا کیا گیا وہ انتہائی قابل مذمت ہے اور ان واقعات پر حکومت اور پولیس کا جو رویہ ہے وہ اور بھی قابل مذمت ہے۔ پولیس کو چاہیے تھا کہ وہ بنگلہ دیش کے واقعات کے بعد کے کشیدہ ماحول میں کسی بھی ریلی کی اجازت نہ دیتی۔ لیکن اس نے نہ صرف یہ کہ ریلی کی اجازت دی بلکہ ہنگامہ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارووائی بھی نہیں کی۔

Published: undefined

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے تو شرپسندوں کے خلاف انتہائی سخت کارروائی کی اور ایک بہت بڑے مندر کا دورہ کرکے وہاں کے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ ان کو پورا تحفظ دیا جائے گا اور قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا۔ لیکن تری پورہ کی حکومت نے اس طرح کی کوئی بھی کارروائی نہیں کی اور شرپسندوں کو چھوٹ دی جس کے نتیجے میں حالات خراب ہو گئے۔

Published: undefined

اگرچہ ہندوستان کا مین اسٹریم میڈیا تری پورہ کے معاملے میں خاموش ہے اور وہ اس کی کوریج نہیں کر رہا ہے لیکن بین الاقوامی میڈیا میں اس کی خاصی کوریج ہو رہی ہے۔ وہ ریاست کے مسلمانوں کی مظلومیت اور شرپسندوں کی شرانگیزی کو کھل کر بیان کر رہے ہیں۔ ان رپورٹوں کے مطابق کئی مسجدوں پر حملے ہوئے ہیں۔ کہیں چند افراد نے جا کر مسجدوں کو نشانہ بنایا تو کہیں کسی ہجوم نے نشانہ بنایا۔ کسی مسجد کو تھوڑا نقصان پہنچا تو کسی کو زیادہ۔ یہاں تک کہ ایک مسجد کے ہندو پڑوسیوں نے بھی بتایا کہ وہ صبح سو کر اٹھے تو انھوں نے دیکھا کہ مسجد پر حملہ ہوا ہے اور اس میں توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔

Published: undefined

ترکی کے سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق دور دراز کے مواضعات میں بھی مسلمان خوف زدہ ہیں۔ کئی مسلمان کئی دنوں تک مسجدوں میں جا کر نماز ادا کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکے۔ کئی خاندانوں نے جب دیکھا کہ سیکڑوں کی بھیڑ ان کی آبادیوں کی جانب بڑھ رہی ہے تو خوف کی وجہ سے وہ دوسری جگہوں پر چلے گئے اور کئی گھنٹے کے بعد لوٹے۔ ٹی آر ٹی کو ایک مقامی مسلمان چالیس سالہ محمد صنوبر نے بتایا کہ ریلی میں شامل کچھ لوگ اس کی دکان کی جانب بڑھے۔ پولیس نے ان کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہی اور ان لوگوں نے اس کی کپڑوں کی دکان میں توڑ پھوڑ کی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ لوگ جے سی بی لے کر آئے تھے اور اس سے دکانوں کو توڑا گیا۔

Published: undefined

ایک دوسرے شخص نے بتایا کہ کئی روز سے لاوڈ اسپیکر سے ہندووں سے یہ اپیل کی جا رہی تھی کہ وہ بنگلہ دیش میں ہندو بھائیوں پر ہونے والے حملوں کے خلاف آئیں اور احتجاج کریں۔ اس کے مطابق بنگلہ دیش میں جو کچھ ہندووں کے ساتھ ہوا وہ یہاں مسلمانوں کے ساتھ ہو۔ ایک مقامی صحافی کا کہنا ہے کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے کچھ نہ کچھ ہنگامہ ہوتا رہتا ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ یہاں بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے کچھ لوگ اس قسم کی حرکتیں کر رہے ہیں۔

Published: undefined

خیال رہے کہ تری پورہ میں تیس برسوں تک بائیں بازو کی حکومت رہی ہے اور مانک سرکار ایک عرصے تک ریاست کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ ان کے زمانے میں فرقہ وارانہ ہنگامے نہیں ہوتے تھے۔ لیکن اب ہونے لگے ہیں۔ مانک سرکار ایک انتہائی سادہ شخص ہیں۔ ان کی سادگی اور کفایت شعاری کی خبریں اکثر و بیشتر سامنے آتی رہتی ہیں۔ انھوں نے جس طرح ریاست میں پرامن انداز میں حکومت کی اور عوام میں بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کی بی جے پی کی حکومت اسے نیست و نابود کر رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined