سیاسی

کیا این آر سی کی حتمی لسٹ پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟... سہیل انجم

اب جبکہ حتمی فہرست شائع ہو گئی ہے تو بی جے پی اور اس کی حلیف جماعت آسام گن پریشد بھی مطمئن نہیں ہیں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ غیر ملکیوں کو نکال باہر کرنے کا ہمارا خواب چکنا چور ہو گیا۔

تصیور سوشل میڈیا
تصیور سوشل میڈیا 

آسام میں شہریوں سے متعلق قومی رجسٹر این آر سی کی حتمی فہرست کی اشاعت کے بعد ایک بہت بڑے حلقے میں بے چینی و اضطراب کی کیفیت ہے۔ جولائی 2018 میں شائع ہونے والی فہرست میں 40 لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے۔ اب موجودہ فہرست میں جو کہ حتمی یعنی آخری ہے، تقریباً بیس لاکھ افراد کے نام غائب ہیں۔ کیا یہ تمام کے تمام غیر ملکی ہیں؟ جی نہیں۔ ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ہندوستانی شہری ہیں۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

دراصل یہ پورا معاملہ سیاسی ہے۔ اس کا مقصد غیر ملکی دراندازوں کے نام پر اقلیتوں کو شہریت سے محروم کر دینا ہے۔ لیکن اب جبکہ حتمی فہرست شائع ہو گئی ہے تو بی جے پی اور اس کی حلیف جماعت آسام گن پریشد بھی مطمئن نہیں ہیں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ غیر ملکیوں کو نکال باہر کرنے کا ہمارا خواب چکنا چور ہو گیا، امیدیں دم توڑ گئیں۔ ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کا کہنا ہے کہ وہ فہرست پر نظر ثانی کی درخواست کریں گے۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

چونکہ مسلمانوں اور بنگلہ بولنے والوں کو غیر ملکی قرار دے کر ملک بدر کرنے کی بی جے پی کی کوشش پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی، لہٰذا اب اس نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ لیکن کیا سبھی مسلمان فہرست میں شامل ہو گئے ہیں، نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ بہت سے مسلمانوں کو ان کے مذہب اور زبان کی بنیاد پر فہرست سے الگ رکھا گیا ہے۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

جبکہ بہت سے غیر مسلموں کے بھی نام اس میں شامل نہیں ہو سکے ہیں۔ بی جے پی کی خواہش تھی کہ تمام ہندووں کے نام اس میں شامل ہو جائیں اور ان مسلمانوں کے نام جو بنگلہ بولتے ہیں یا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر بنگلہ دیشی ہیں اور دراندازی کرکے ہندوستان میں آگئے ہیں، نکال باہر کیا جائے۔ لیکن شہریت ثابت کرنے کا جو پیمانہ بنایا گیا اس پر سارے اتر جائیں گے یہ ممکن نہیں تھا۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

جن لوگوں کے نام غائب ہیں ان میں اکثریت غریبوں اور مزدوروں کی ہے۔ جب اس ملک میں وزرا اپنی تعلیمی اسناد کے ثبوت پیش نہیں کر سکتے تو پھر بھلا غریب لوگ کہاں سے یہ ثابت کر پائیں گے کہ ان کے اجداد 1951 سے پہلے ہندوستان میں آگئے تھے۔ لہٰذا بہت بڑی تعداد شامل فہرست نہیں ہو سکی ہے۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

بی جے پی صدر اور موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ آسام میں چالیس لاکھ غیر ملکی تارکین وطن ہیں۔ انھوں نے الیکشن کے دوران ان لوگوں کو دیمک کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک ایک کو چن چن کر نکال باہر کیا جائے گا۔ ان کے اس اعلان کا مقصد ان لوگوں کے ووٹ حاصل کرنا تھا جو بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست سے متاثر ہیں۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

اس سے قبل کسی لیڈر نے تارکین وطن کی تعداد پچاس لاکھ بتائی تھی تو کسی نے تیس لاکھ۔ الگ الگ لوگوں نے الگ الگ اعداد و شمار بتائے تھے۔ لیکن حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آسام میں کتنے غیر ملکی ہیں اور اب جبکہ حتمی فہرست شائع ہو گئی ہے تو اس کی نشاندہی کرنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ چونکہ بہت سے غیر مسلم بھی فہرست سے باہر ہیں اس لیے بی جے پی کو اپنی غلطی کا احساس ہو جانا چاہیے۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنٹسی انٹرنیشنل نے تقریباً بیس لاکھ افراد کے حتمی فہرست سے باہر رہنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ حتمی فہرست کی اشاعت کے بعد اتنی بڑی تعداد کی تقدیر غیر یقینی ہو گئی ہے۔ اس نے آسام حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ غیر ملکیوں سے متعلق ٹریبونل شفافیت کے ساتھ اور قومی و بین الاقوامی قوانین کے معیار کے مطابق کام کریں۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

ایمنٹسی انٹرنیشنل کے بھارت کے سربراہ آکار پٹیل نے کہا ہے کہ غیر ملکیوں سے متعلق ٹریبونل، جو کہ لاکھوں افراد کی بھارتی شہریت کا فیصلہ کریں گے، نیم عدالتی ادارے ہیں جہاں غیر ملکی قرار دیئے گئے لوگوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔ ان کے مطابق متعدد رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان ٹربیونلس کی کارروائی من مانی ہے اور ان کے آرڈر جانبدارانہ اور امتیازی ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کسی شخص کو من مانے ڈھنگ سے یا غیر واضح بنیادوں پر اس کی شہریت سے محروم نہ کیا جائے۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

انسانی حقوق کے ایک کارکن اور فورم فار سول رائٹس کے چیئرمین سید منصور آغا کے مطابق یہ پورا معاملہ سیاسی ہے اور اسے اقلیتوں کو ہدف بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ جن لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں وہ غریب مزدور قسم کے لوگ ہیں۔ وہ ہر سال اجڑتے ہیں اور ہر سال بستے ہیں۔ وہ یہ بات کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کے اجداد فلاں سنہ میں آئے تھے اور ان کے پاس اس کے ثبوت ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی ملک اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہیں کرتا جیسا کہ بھارتی حکومت نے کیا ہے۔ بیس لاکھ نہ سہی صرف بیس ہی افراد ہوں تب بھی ان کے ساتھ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ جن کے نام باہر ہیں وہ سب مظلوم انسان ہیں خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

غیر ملکیوں سے متعلق ٹربیونلس کے کام کاج میں شفافیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ایک ہی گھر کے چار لوگوں کے نام آجائیں اور چار کے یا دو کے نہ آئیں۔ شیر خوار بچے کا نام آجائے اور اس کی ماں کا نہ آئے۔ ایک فوجی کا نام تو آجائے اور اس کے بھائیوں کے جو کہ خود بھی فوجی ہیں، نام نہ آئیں۔ جبکہ ایک خاندان کے لوگوں نے ایک ہی قسم کی دستاویزات جمع کرائے تھے۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

ایسی شکایت بھی ملی ہے کہ ٹریبونلس نے کچھ لوگوں کو ان کے کاغذات کی جانچ کے لیے بلایا اور کچھ لوگوں کو نہیں بلایا۔ مثال کے طور پر ایک گھر میں ساس اور سسر کو تو بلایا گیا مگر بہو کو نہیں بلایا گیا۔ جن کو نہیں بلایا ان کے نام شامل نہیں ہیں۔ جبکہ سب کے کاغذات یکساں تھے۔ متعدد سرکاری ملازموں کے بھی نام غائب ہیں۔ دس دس بیس بیس سال تک نوکری کرنے والے بھی فہرست سے باہر ہیں۔ ایسی بھی شکایتیں ملی ہیں کہ بہت سے لوگوں کے نام نہ منظور شدہ میں ہیں اور نہ ہی مسترد شدہ میں۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

ایک مسلم فوجی ثناء اللہ کا نام، جو کہ اب نیم مسلح دستے میں ملازمت کرتے ہیں، اس سے قبل کی فہرست میں نہیں آیا تھا مگر اس بار آگیا ہے۔ انھیں کچھ ماہ قبل گرفتار بھی کیا گیا تھا اور غیر ملکیوں کے ہوم میں رکھا گیا تھا۔ لیکن اس بار وہ خوش قسمت ثابت ہوئے۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

یہ پوری مشق بظاہر بے ترتیب اور من مانی سی لگتی ہے۔ متعدد سیاسی جماعتوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اب جبکہ غیر متوقع طور پر یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے تو کہا جا رہا ہے کہ جن کے نام شامل نہیں ہیں انھیں اس وقت تک غیر ملکی قرار نہیں دیا جائے گا جب تک کہ تمام قانونی مراحل مکمل نہ ہو جائیں۔ یعنی انھیں 120 دنوں کا وقت دیا جا رہا ہے کہ وہ از سر نو اپنے کاغذات پیش کریں۔ اگر تب بھی وہ اپنی شہریت ثابت نہ کر سکیں تو سپریم کورٹ بھی جا سکتے ہیں۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

ہم سمجھتے ہیں کہ اگر جن لوگوں کے نام باہر ہیں وہ سب مسلمان ہوتے تو یہ بات نہیں کہی جاتی۔ چونکہ ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں تو حکومت انھیں کیسے غیر ملکی قرار دے۔ مجموعی طور پر یہ پورا معاملہ بڑا مشکوک ہے اور عدم شفافیت کا مظہر ہے۔ اس فہرست پر قطعی طور پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 01 Sep 2019, 10:10 PM IST