سیاسی

ہماری خارجہ پالیسی کو کیا ہوا، نیپال جیسا ملک بھی آنکھ دکھا رہا ہے

حکومت اب بھی ہوش کے ناخن لے اپنا فرقہ وارانہ ایجنڈا تبدیل کرے ورنہ یہ ملک عالمی برادری میں نکو بن جائےگا جس کی معاشی سیاسی اور اسٹریٹجک قیمت بہت زیادہ ہو گئی -

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا 

ہندستان اسٹریٹجک اور ڈپلومیٹک طور سے آزادی کے بعد سے اب تک عالمی برادری خاص کر اپنے پڑوسیوں کے درماین اتنا الگ تھلگ اور اتنا گھر ا ہوا کبھی نہیں رہا جس نہج پر مودی جی نے اسے پہنچا دیا ہے -حالت یہ ہو گئی ہے کہ نیپال جیسے ملک نے بھی نہ صرف ہمیں آنکھ دکھانا شروع کر دیا ہے بلکہ سرحد پر فائرنگ کر کے ہمارے ٤ لوگوں کو زخمی اور ایک کو ہلاک کر دیا ادھر نیپالی پارلیمنٹ نے ہندستان کے تین علاقوں کالا پانی لپو لیکھ اور لمپیا دھرا کو اپنے ملک میں شامل کرنے کی قرار داد منظور کر کے ہندستان کی علاقائی سالمیت کو کھلا چیلنج دیا ہے۔

Published: undefined

نیپال اور چین کے درمیان بڑھتی نزدیکیاں ہندستان کے اسٹریٹجک مفاد میں نہیں ہیں لیکن نیپال کو لے کر مودی حکومت کا رویہ مخلصانہ کم اور حاکمانہ زیادہ رہا ہے حالانکہ شہنشایت کے زمانہ میں نیپال خود کو ایک ہندو ملک کہتا تھا لیکن وہاں آر اس اس برانڈ ہندتو کو کبھی پنپنے نہیں دیا گیا یہی وجہ ہے ار اس اس وہاں اپنی کوئی شاخ کبھی قائم نہیں کر سکا لیکن شہنشایت کے خاتمہ اور ملک میں آئینی جمہوریت قائم ہونے کے بعد نیپال ہندستان کی طرح ہی ایک سوشلسٹ سیکولر ملک بن گیا اور وہ اپنے اس آئین پر سختی سے قائم ہے - ملک میں شہنشایت کے خاتمہ اور آئینی جمہوریت کے قیام میں وہاں کی کمیونسٹ پارٹی نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا اس لئے کمیونسٹ وہاں ایک بڑی سیاسی قوت ہیں جنکا فطری جھکاؤ چین کی طرف رہا ہے لیکن اپنے ملک کی ضروریات خاص کر اشیائے ضروری کی سپلائی کے لئے نیپال کا ہندستان پر زبردست انحصار رہا ہے اس لئے اس نے ہندستان سے اپنا خصوصی رشتہ برقرار رکھا لیکن 2015 میں مدھیسی مسلہ کو لے کر کچھ ایسے حالات بنے کہ ہندستان نے نیپال جانے والی سپلائی روک دی یہ معاشی بلاکیڈ ایک نہایت ہی غیر دانشمندانہ اور تنگ نظری والa فیصلہ تھا لیکن 56 انچ کی چھاتی کے چکر میں نیپالی عوام کو مہینوں تک رسوئی گیس سمیت اشیاۓ ضروری سے محروم رکھ کر ہند نیپال تعلقات میں ایک مستقل دراڑ پیدا کر دی گئی -ادھر نیپال میں جب تباہ کن زلزلہ آیا تو مودی جی نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیپال کی بھرپور مدد کی لیکن جیسا کہ ہندستان میں نیا سیاسی اور صحافتی کلچر پیدا ہو چکا تھا یہ امداد اور مودی جی کا مہیما منڈن کچھ اس انداز میں کیا گیا اور ہندستانی میڈیا خاص کر ٹیلی ویژن پر وہ طوفان بدتمیزی مچایا گیا کہ نیپال کو بیچ میں ہی ہندستان سے کہنا پڑا کہ اسے اب مزید امداد نہیں چاہئے - چین نے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ تبت کو کٹھمنڈو سے جوڑنے والی سڑک کی تعمیر کے بعد نیپال کی ہندستان پر اشیائے ضروری کی سپلائی کے لئے انحصار کم ہو گیا اور اب جو کچھ ہے وہ سامنے ہے - فی الحال تو نیپال نے ہندستانی علاقہ پر قبضہ ہی ظاہر کر کے اسے اپنے ملک میں قانونی حیثیت بھی دے دی ہے، آگے کیا ہوگا کچھ نہیں کہا جا سکتا - بیشک نیپال فوجی طاقت کے معاملہ میں ہندستان کے سامنے کہیں کھڑا نہیں ہوتا لیکن اس کے پس پشت چین اور چین کی توسیع پسندانہ پالیسی ہے اس لئے اس اسٹریٹجک خطرہ کوہندستان نظر انداز نہیں کر سکتا - یہ ہندستانی ڈپلومیسی کا زبردست امتحان ہے۔

Published: undefined

اس سے قبل چین نے بھی ہندستان سے ملحق اپنی سرحد جسے حقیقی قبضہ لائن کہا جاتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درماین مستقل سرحد ابھی طے نہیں ہو پائی ہے صرف حقیقی قبضہ لائن کا ہی تعین ہو پایا ہے جس کو لے کر دونوں ملکوں کےدرمیان کبھی نرم کبھی گرم تعلقات چلتے رہے ہیں لیکن 1962 میں باقاعدہ جنگ ہوئی۔ اس کے بعد 1967 میں اندرا گاندھی کے دور حکومت میں ہندستانی فوج نے چین کو منہ توڑ جواب دیا تھا تب سے ہند چین تعلقات میں تعطل برقرار رہا لیکن آنجہنائی راجیو گاندھی نے اس برف کو توڑنے کی کوشش کرنے کے لئے چین کا دورہ کیا اس دورے کے کافی اچھے نتائج سامنے آئے جس میں ایک یہ معاہدہ بھی تھا کہ دونون ملک سرحدی تنازعہ حل کرنے کے لئے طاقت کا استعمال نہیں کریں گے اور حقیقی قبضہ لائن پر پیدا ہونے والے کسی بھی تنازعہ کو گفتگو کے ذریعہ حل کریں گے دوسری بات یہ کہ سرحد ی تنازعہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے دونوں مک باہمی تجارت اور دیگر امور میں اپنے تعلقات کوفروغ دیتے رہیں گے۔

Published: undefined

لیکن چین اپنی عادت کے مطابق اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کو آگے بڑھاتا رہا پاکستان کوساتھ لے کر وہ ہندستان کی گردن کے ارد گرد اپنا حلقہ تنگ کرتا رہا۔ پاکستان نے ہندستان کا زبردستی قبضہ کیا ہوا کافی بڑا علاقہ چین کو لیز یا تحفہ میں دے رکھا ہے اور اس نے قراقرم شاہراہ تعمیر کر کے سنڑل ایشیا تک اپنی پہنچ بنا لی ہے اب نیپال کیلئے تبت کٹھمنڈو شاہراہ بن جانے سے اس نے ہںد ستان کے لئے ایک اسٹریٹجک مسلہ کھڑا کردیا ہے۔ اس کی اس کوشش کے جواب میں ہندستان نے بھی سرحد پر ایسی سڑک کی تعمیر شروع کر دی ہے جسکے مکمل ہونے کے بعد ہندستان کوقراقرم شاہراہ پر چین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے میں مدد ملےگی -

Published: undefined

اب نیا کھل چین نے یہ شروع کیا ہے کہ وہ تبت میں کافی اندر تک ہندستانی علاقہ میں گھس آیا ہے - سبکدوش میجر اجے شکلا نے دعوہ کیا ہے کہ چین ہندستانی علاقہ میں کئی کلو میٹر اندر تک گھس آیا ہے - حکومت ہند نے ابھی تک صحیح صورت حال سے نہ تو عوام کو آگاہ کیا ہے نہ ہی پارلیمنٹ کو اس کے برخلاف اپنی شاطرانہ چالوں کو چلتے ہوئے پورے معاملہ کی جلیبی بنا دی ہے ٹی وی مباحثوں میں سبکدوش فوجی افسروں کو بھیج کر وہ اس سنگین مسلہ پر مسلسل کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن جنرل جوشی جنرل پنانگ اور کچھ دوسرے افسران میجر اجے شکلا کے دعوہ کودرست قرار دے رہے ہیں -ادھر چین نے دعوی کیا ہے کہ دونو ملکوں کے اعلی فوجی افسران کی میٹنگ کے بعد اس نے اپنے فوجویوں کو ڈھائی کلو میٹر پیچھے بلا لیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ چینی فوجی ہندستانی علاقوں میں داخل ہوے تھے - یہاں چینی رہنما ماؤ زی تنگ کے اس قول کو یاد کرنا معاملہ کو سمجھنے میں آسانی کرےگا -ان کا کہنا تھا کہ دشمن کے علاقہ میں دس کلو میٹر تک گھس جاؤ اسکے بعد جب عالمی دباؤپڑے تو گفتگو کا سلسلہ شروع کرو اور دو کلو میٹر پیچھے ہٹ جاؤ، دنیا تمہیں امن پسند بھی کہےگی اور تم آٹھ کلو میٹر کے فائدہ میں رہوگے - چین میں ماؤ زی تنگ کے بعد بہت کچھ بدل گیا ہے لیکن توسیع پسندی اور ان کے اس مقولہ پر عمل کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔

Published: undefined

پاکستان تو خیر ہندستان کا ازلی دیرینہ دشمن ہے ہی اس کے لئے کافی حد تک پاکستان کی بدمعا شیاں تو شامل ہیں ہی لیکن جواہر لال نہرو سے لےکر اٹل بھاری باجپائی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ تک کسی نے کبھی پاکستان سے تعلقات کو ہندستان کی سیاست خاص کرالیکشن میں کامیابی کے لئے نہیں استعمال کیا یہاں تک کہ پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے والی اندرا گاندھی نے بھی جنگ سے پہلے اور جنگ کے بعد ہمیشہ یہی کہا کہ ایک کمزور پاکستان علاقہ میں امن اور استحکام کے لئے خطرہ ہوگا اس لئے ایک مضبوط خوش حال پاکستان ہندستان کے مفاد میں ہے۔ اٹل جی کہا کرتے تھے کہ ہم دوست بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں خود نریندرا مودی نے بھی وزیر اعظم بننے کے بعد پا کستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا لیکن پاکستان کی ناعاقبت اندیشانہ حرکتوں کی وجہ سے معملات بگڑتے چلے گئے ادھر ہندستان میں بھی سیاسی فائدہ کے لئے پاکستان کو نشانہ پر رکھنامودی جی کو سود مند دکھائی دیا اور آج حالت یہ ہے کہ اگر دوسری پارٹی کی بھی حکومت آئے تو بھی پاکستان ن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اس کے لئے پریشانیوں کا ہی نہیں سیاسی گھاٹے کا سودا ہوںسکتا ہے۔

Published: undefined

بنگلہ دیش اور افغانستان ہندستان کے قابل اعتماد دوست رہے ہیں لیکن شہری ترمیمی قانون بنا کے ان دونو ملکوں کے اندرونی معاملوں میں جو مداخلت کی گئی اس سے یہ دو برافروختہ ہو گئے یہاں تک کہ بنگلہ دیش کے دو وزیروں نے ہندستان کا دورہ منسوخ کر دیا تھا اور وزیر اعظم نریندرا مودی کے حلاف وہاں کے عوام نے احتجاج کرنے اور انھیں ڈھاکہ ہوائی اڈہ سے باہر بھی نکلنے نہ دینے کی آگآہی کی تھی جس کے بعد وزیر اعظم مودی کو بنگلہ دیش کا دورہ رد کرنا پڑا تھا۔

Published: undefined

خلیجی ملکوں سے بھی ہندستان کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں گجرات فساد میں نریندرا مودی کے کردار کو جانتے ہوئے بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں انکی پذیرائی ہوئی اور ان کو اعلی ترین شہری اوارڈ سے بھی نوازہ گیا لیکن شہری ترمیمی قانون اور این آر سی تیار کرنے اور دہلی فساد میں پولیس کی یکطرفہ کارروائی کے ساتھ ہی ساتھ وہاں موجود سنگھیوں نے ایسے ایسے بیانات ٹویٹر اور فیس بک پر ڈالے کہ وہاں کی حکومتوں نے ان لوگوں کی وجہ سے حکومت ہند سے ناراضگی کا اظہار کیا جس کی وجہ سے دونو ملکوں کے تعلقات میں اب وہ گرم جوشی نہیں رہ گئی جو ابھی ایک سال پہلے تک پائی جاتی تھی- ضرورت ہے کہ حکومت اب بھی ہوش کے ناخن لے اپنا فرقہ وارانہ ایجنڈا تبدیل کرے ورنہ یہ ملک عالمی برادری میں نکو بن جائےگا جس کی معاشی سیاسی اور اسٹریٹجک قیمت بہت زیادہ ہو گئی - سنگھیوں کا اقتدار کا نشہ اور ان کی رعونت ملک کو بہت بھاری پڑ رہی ہے -

(مضمون میں جن خیالات کا اظہار مضمون نگار نے کیا ہے وہ ان کے ذاتی ہیں اور ادارہ کا ان خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے )

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined