سیاسی

لوک سبھا انتخاب 2024: اتراکھنڈ کا اس مرتبہ بدلا بدلا ہے مزاج... رشمی سہگل

اتراکھنڈ کی سبھی 5 لوک سبھا سیٹوں پر پہلے مرحلہ میں 19 اپریل کو ووٹ ڈالا جائے گا، اس کے لیے انتخابی تشہیر تو سبھی پارٹیوں نے خوب کی لیکن ہوا کا رخ بی جے پی کے خلاف دکھائی دے رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>اتراکھنڈ</p></div>

اتراکھنڈ

 

اتراکھنڈ کی سبھی 5 لوک سبھا سیٹوں (ہریدوار، ٹہری گڑھوال، پوڑی گڑھوال، الموڈا، نینی تال-ادھم سنگھ نگر) کے لیے 19 اپریل کو پہلے مرحلہ میں ووٹنگ ہوگی۔ ویسے اتراکھنڈ کی حالت اس معنی میں ملک کے دیگر حصوں سے ذرا بھی مختلف نہیں ہے کہ یہ لوک سبھا انتخاب موٹے طور پر بی جے پی بنام عوام کے مقابلے میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کا اثر یہ ہے کہ بی جے پی سے دو دو ہاتھ کر رہے اپوزیشن امیدواروں کو بغیر کچھ خاص کیے ہی عوامی حمایت مل رہی ہے۔

Published: undefined

بی جے پی 10 سالوں سے ریاست میں برسراقتدار ہے اور اس نے 2019 کے ساتھ ساتھ 2014 میں بھی یہاں کی سبھی پانچ لوک سبھا سیٹیں جیتی تھیں۔ حالانکہ اس مرتبہ حالات بدلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بی جے پی کو اقتدار مخالف لہر نے جکڑ رکھا ہے۔ ریاست کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے اور اس ہندو اکثریتی ریاست میں اقلیتی طبقہ کی آبادی 18 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14 فیصد ہے۔

Published: undefined

نشانے پر مسلمان

ویسے بی جے پی کے لیے یہ کرو یا مرو والا انتخاب ہے۔ پشکر سنگھ دھامی کی حکومت میں اتراکھنڈ ظاہری طور پر گجرات کے بعد ہندوتوا کا دوسرا تجربہ گاہ بنتا دکھائی دیا ہے۔ دھامی نے مسلمانوں کو ہدف بنانے والے تمام اقدام کیے ہیں، جن میں لو جہاد بل لانا بھی شامل ہے۔ مبینہ سرکاری اراضی پر بنے مزاروں اور مسجدوں کو توڑ دیا گیا اور مندروں کے خلاف ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یکساں سول کوڈ کو بھی ایسا ہی ایک اور قدم مانا جاتا ہے، لیکن یہ ایک مقبول انتخابی ایشو نہیں بن سکا ہے۔

Published: undefined

انتخابی تشہیر کو دیکھیں تو کٹ آؤٹ، پوسٹر اور ہورڈنگ کے ساتھ بی جے پی ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔ کانگریس سمیت دیگر پارٹیوں کی تشہیری گاڑیاں شاید ہی نظر آتی ہوں اور مقامی سے لے کر قومی میڈیا تک میں اپوزیشن کافی حد تک غائب ہے۔ پھر بھی زمینی سطح پر عدم اطمینان صاف دکھائی دیتا ہے اور اس سے بی جے پی میں اندرونی بے چینی ہے۔

Published: undefined

اگنی ویر منصوبہ پر ناراضگی

اتراکھنڈ میں شہیدوں کی 50 ہزار بیوگان سمیت 1.9 لاکھ سے زیادہ سابق دفاعی اہلکاروں کا گھر ہے۔ کسی بھی انتخاب میں ’فوجی ووٹ‘ ایک اہم کردار نبھاتا ہے۔ اس مرتبہ اگنی ویر منصوبہ کے خلاف ناراضگی صاف دیکھی جا سکتی ہے، اور ریاست بھر کے سابق فوجی اس منصوبہ کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سابق فوجیوں کا ایک بڑا گروپ 13 اپریل کو دہرادون میں جنرل وی کے سنگھ (سبکدوش) سے ملنے گیا اور ان سے اگنی ویر منصوبہ کو واپس لینے کو کہا کیونکہ اس سے ریاست کے ہر دوسرے کنبہ پر اثر پڑا ہے۔ مرکزی حکومت نے سنگھ کو ان کے ساتھ بات چیت کرنے اور ان کی ناراضگی ختم کرنے کے لیے بھیجا تھا، لیکن لوگوں کی آواز اَن سنی کر دی گئی۔ سابق فوجیوں کے نشانے پر سب سے آگے ریاست کے وزیر داخلہ گنیش جوشی ہیں جو وزیر برائے فوجی فلاح بھی ہیں۔ جوشی کی عوامی میٹنگوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے اور کچھ مواقع پر ماحول اتنا خراب ہو گیا کہ وہ اپنی کار سے بھی باہر نہیں نکل سکے۔

Published: undefined

ناراضگی برداشت کر رہے بی جے پی امیدوار

عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنے والے گنیش جوشی تنہا بی جے پی امیدوار نہیں ہیں۔ رواں ماہ کے شروع کی بات ہے جب لگاتار تین پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کے لیے ٹہری لوک سبھا سیٹ جیتنے والی مہارانی راج لکشمی شاہ نیپالی نژاد لوگوں سے بات چیت کرنے دہرادون کے گڑھی کینٹ پہنچی تھیں۔ جوشی ان کے ساتھ تھے۔ لوگوں نے دونوں کو گھیر لیا اور انھیں میٹنگ سے خطاب نہیں کرنے دیا۔ مہارانی کے خلاف یہ ناراضگی ان کے اپنے انتخابی حلقہ میں بھی صاف نظر آتی ہے، کیونکہ لوگوں کو شکایت ہے کہ بار بار کہنے کے بعد بھی ان کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ مہارانی راج لکشمی شاہ کو چیلنج کانگریس کے جوت سنگھ گنسولا سے نہیں بلکہ اتراکھنڈ بے روزگار ایسو سی ایشن کے سربراہ بابی پنوار سے مل رہا ہے۔ پنوار آزاد امیدوار کی شکل میں انتخاب لڑ رہے ہیں اور نوجوانوں کے درمیان بہت مقبول ہیں، کیونکہ وہ تعلیم اور ملازمت کے لیے لڑنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

Published: undefined

سماجی رشتوں پر ’اگنی ویر‘ کا سایہ

اگنی ویر منصوبہ کا سایہ سماجی رشتوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ نیپال کی سرحد سے ملحق ضلع پتھوراگڑھ کے رمن سنگھ کہتے ہیں ’’ہمارے یہاں سے فوج میں شامل ہونے والے نوجوانوں کو نیپال سے شادی کے لیے رشتے آتے تھے۔ انھیں وہاں دلہن تلاش کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اب کوئی بھی اپنی بیٹی کی شادی ’اگنی ویروں‘ سے نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ اس میں ملازمت کی کوئی سیکورٹی نہیں ہے اور نہ ہی وہ پنشن سمیت دیگر سہولیات کے حقدار ہیں۔‘‘

Published: undefined

اگنی ویر تنہا ایشو نہیں ہے جس نے عوام کو برسراقتدار نظام کے خلاف کر دیا ہے۔ پوڑی گڑھوال انتخابی حلقہ میں بی جے پی امیدوار انل بلونی کو ایک باہری شخص کی شکل میں دیکھا جاتا ہے جو مودی حکومت کے میڈیا مشیر کی شکل میں کام کر چکے ہیں۔ بلونی سابق کانگریس ریاستی صدر گنیش گودیال کے خلاف میدان میں ہیں۔ بلونی ’مودی کی تیسری لہر‘ سے فائدہ اٹھانے کی امید کر رہے ہیں۔ وہ مودی حکومت کی حصولیابیوں کو شمار کراتے ہوئے چار دھام پروجیکٹ کا تذکرہ کرتے ہیں جس سے گھریلو سیاحت کو فروغ ملا ہے۔

Published: undefined

انکیتا قتل واقعہ کا سایہ

پوڑی گڑھوال ایک بڑا انتخابی حلقہ ہے جو سری نگر، جوشی مٹھ، کوٹ دوار اور لینڈس ڈاؤن کو کور کرتا ہے۔ لیکن پوڑی گڑھوال میں ماحول بی جے پی کے حق میں نظر نہیں آتا۔ سری نگر میں ماحول اس لیے بھی خلاف ہے کیونکہ ریاستی حکومت انکیتا بھنڈاری قتل معاملے میں کلیدی ملزم کو پکڑنے میں ناکام رہی ہے۔ جوشی مٹھ کے ساتھ ساتھ پورے چمولی ضلع میں زمین دھنسنے کے معاملے پر دھامی حکومت کے ذریعہ مناسب مداخلت نہیں کرنے کو لے کر بھی لوگوں میں ناراضگی ہے۔

Published: undefined

راجناتھ سنگھ اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسے کئی سرکردہ بی جے پی لیڈروں نے بلونی کے لیے انتخابی تشہیر کی ہے۔ بلونی نے لوگوں سے کہا بھی ہے کہ وہ ایک ’منتری‘ (مکھیہ منتری یعنی وزیر اعلیٰ پڑھیں) کے لیے ووٹ کریں گے، نہ کہ ایک رکن پارلیمنٹ کے لیے۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے، کیونکہ دیگر بی جے پی لیڈران بلونی کو اپنے سیاسی مستقبل کے لیے خطرہ تصور کر رہے ہیں۔ آر ایس ایس میں بھی بلونی کو لے کر کوئی جوش والا ماحول نہیں ہے۔

Published: undefined

جوشی مٹھ سنگھرس سمیتی کے سربراہ اتل ستی کہتے ہیں کہ ’’دھامی حکومت لینڈ سلائڈنگ کے لیے ایک وسیع باز آبادکاری پیکیج لانے میں ناکام رہی ہے۔ اب تک صرف 112 کنبوں کو مدد مل سکی ہے۔ اُدھر کیدارناتھ مندر کے ’گربھ گرہ‘ پر لگی سونے کی سطح کے غائب ہونے کا تنازعہ کانگریس پارٹی کے ذریعہ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ 125 کروڑ ڈالر کے سونے کی دھوکہ دہی کا معاملہ گزشتہ سال جون میں سامنے آیا تھا۔ اس تنازعہ کے بعد وزیر سیاحت ستپال مہاراج کو غائب ہوئے سونے کی جانچ کا حکم دینا پڑا، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔

Published: undefined

کیدارناتھ میں پوجا کی رسم کرنے والے تین ہزار پجاریوں نے سونے کی سطح چڑھانے کی مخالفت کی تھی اور چار دھام مہاپنچایت کے نائب سربراہ سنتوش ترویدی نے کھلے طور پر سوال اٹھایا تھا کہ سونے کی سطح راتوں رات پیتل میں کیسے بدل گئی۔

Published: undefined

ایس سی ریزرو سیٹ الموڑا میں 2022 کے بعد سے پانچویں بار پرانے مخالفین بی جے پی کے موجودہ رکن پارلیمنٹ اجئے ٹمٹا اور کانگریس کے پردیپ ٹمٹا کے درمیان مقابلہ ہے۔ دفاعی کے وزیر مملکت اجئے بھٹ ایک بار پھر نینی تال-ادھم سنگھ نگر انتخابی حلقہ سے انتخاب لڑ رہے ہیں جہاں کانگریس نے پرکاش جوشی کو میدان میں اتارا ہے جو اتراکھنڈ سنگھرش واہنی کے رکن تھے اور انھوں نے ’جنگل تحریک‘ اور ’شراب مخالف تحریک‘ میں حصہ لیا تھا۔ اس انتخابی حلقہ میں مسلم اور سکھ کسانوں کی قابل قدر موجودگی ہے۔ ریاستی حکومت نے جس طرح سے ہلدوانی فسادات کو غلط طریقے سے سنبھالا اس سے مسلم ناخوش ہیں، اور سکھ کسان بی جے پی حکومت کے ذریعہ کسانوں کی مخالفت کو غلط طریقے سے سنبھالنے پر ناراض ہیں۔

Published: undefined

ایک مشہور سائنسداں اور استاذ ڈاکٹر روی چوپڑا نے سکھ کسانوں اور آنجہانی انقلابی بھگت سنگھ کے بھتیجے کے درمیان بات چیت کی ایک سیریز کا انعقاد کیا۔ انھوں نے بتایا کہ باج پور ضلع میں صنعتی مرکز قائم کرنے کے لیے حاصل کی جا رہی ان کی 8000 ایکڑ زمین کی مخالفت میں کسان گزشتہ 275 دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ ایسی ہی ایک تحریک ڈوئیوالا ضلع مین شروع ہوئی ہے جہاں ریاستی حکومت ایئرو سٹی بسانے کے لیے زمین حاصل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ جالی گرانٹ ہوائی اڈے کو بین الاقوامی ہوائی اڈہ قرار دینے کے بعد سیاحوں کو متوجہ کرنے میں ایئرو سٹی زیادہ مدد کرے گی۔

Published: undefined

کانگریس لیڈر ہریش راوت نے ہریدوار سے انتخاب نہیں لڑ کر اپنے حامیوں کو مایوس کیا ہے، حالانکہ انھوں نے اپنے بیٹے ویریندر راوت، جو سیاسی لحاظ سے نووارد ہیں، کو ہریدوار میں اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ بی جے پی کے تریویندر راوت کے خلاف میدان میں اتارا ہے۔ راوت کمزور وزیر اعلیٰ تھے اور انھیں 2021 میں کمبھ میلہ کے دوران تیرتھ یاتریوں کو کوارنٹین نہیں کرنے کے اپنے خطرناک فیصلہ کا دفاع کرنا مشکل ہو رہا ہے جس میں 9000 کووڈ معاملوں والی ریاست ایک ہفتہ کے اندر 2.11 لاکھ کے خطرناک نمبر تک پہنچ گیا تھا۔

Published: undefined

ہریدوار میں 30 فیصد مسلم ہیں۔ اس کے بعد دلت اور او بی سی 20-20 فیصد ہیں۔ بقیہ 30 فیصد میں برہمن، ٹھاکر اور بنیا سمیت تمام اونچی ذاتیں آتی ہیں۔ بی ایس پی امیدوار جمیل احمد مسلم، دلت اور او بی سی ووٹوں میں سیندھ لگا سکتے ہیں جس سے مقابلہ یکطرفہ ہو سکتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined