سیاسی

پرینکا گاندھی: بی جے پی کے لئے خطرے کی گھنٹی... مرنال پانڈے

لگاتار اپنے والد جواہر لال نہرو کو جیل جاتے، والدہ کو بیماری میں مبتلا ہوتے اندرا گاندھی کی طرح پرینکا گاندھی نے بھی کئی مناظر دیکھے، جو حساس بچے کو کئی بار وقت سے پہلے ہوشیار اور صابر بنا دیتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

پرینکا گاندھی کو کانگریس جنرل سکریٹری اور اتر پردیش کے پوروانچل کا انچارج بنا کر کانگریس صدر نے بالآخر رسمی طو پر سیاست میں اتار ہی دیا۔ یوں تو وہ ہندوستانی سیاست کے کئی طوفانوں کے مرکز میں رہی ہیں، لیکن اب تک ان کا کردار ناظرین اور مشیر کا ہی زیادہ رہا۔

عرصہ سے وہ رائے بریلی اور امیٹھی میں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے لیے تشہیری کام بخوبی سنبھالتی رہی ہیں۔ لیکن خود سیدھی شراکت داری سے الگ ہی رہتی آئی ہیں۔ اس دوران ان کی بڑھتی مقبولت کو دیکھ کر کارکنان اور پارٹی کے لیڈر مطالبہ کر رہے تھے کہ 2019 کے اہم عام انتخابات کے میدان میں پرینکا سیدھے اتر کر کوئی اہم کمان سنبھال لیں۔ اتر پردیش، وہاں بھی وزیر اعظم اور ریاستی وزیر اعلیٰ کے انتخابی حلقہ سے زیادہ اور کون ہو سکتا تھا؟۔

عام بڑے پارٹی لیڈر کے مقابلے میں پرینکا گاندھی کی عمر کچھ کم بھلے ہی ہو، لیکن یہ غیر متنازعہ ہے کہ انھوں نے گزشتہ چالیس سالوں کے دوران ہندوستانی جمہوریت کے اسٹیج پر ہر انتخاب کو بالکل آگے کی کرسی پر بیٹھ کر مع اہل و عیال دیکھا ہے۔ خود ان کا بچپن تمام خاندانی عروج کے درمیان (اپنی دادی اندرا جی کی طرح) زبردست خاندانی اتھل پتھل اور حادثوں کے درمیان گزرا۔

لگاتار اپنے والد جواہر لال نہرو کو جیل جاتے، والدہ کو بیماری میں مبتلا اندرا گاندھی کی طرح پرینکا گاندھی نے بھی کئی مناظر دیکھے، جو حساس بچے کو کئی بار وقت سے پہلے ہوشیار اور صابر بنا دیتے ہیں۔ شاید اسی لیے انھوں نے سرگرم سیاست سے دور رہ کر اپنے بچوں کی پرورش کے لیے وقت دینا طے کیا۔

ان کی دادی سے بھی گووند بلبھ پنت نے اتر پردیش کا اسمبلی انتخاب لڑنے کے لیے کہا تھا، لیکن تیس سالہ اندرا جی نے فیملی کا حوالہ دے کر وہ تجویز نامنظور کر دی تھی۔ لیکن تاریخ کا دیوتا کئی بار کچھ لوگوں کے لیے ان کی عدم دلچسپی کے باوجود اپنی طرف سے اسکرپٹ لکھ دیتا ہے۔ 1952، 1957، 1962 کے انتخابات میں حصہ نہ لیتے ہوئے بھی 1955 میں اندرا گاندھی ورکنگ کمیٹی کی رکن بنیں اور 1959 میں پارٹی صدر۔ اور 1966 میں 24 جنوری کو شاستری جی کے اچانک انتقال کے بعد ہونہار لیکن جھجک بھری اندرا گاندھی ہندوستان کی تیسری وزیر اعظم بن گئیں۔ کبھی ان کو لوہیا نے گونگی گڑیا کہا تھا۔

پرینکا پچھلے پندرہ سالوں سے لگاتار کبھی وِنگس سے بطور پرومپٹر اور کبھی گرین روم میں پارٹی کے لئے انتخابی جنگ لڑنے والے اہم کرداروں کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہیں۔ اس لیے 1966 میں یوتھ رہی نسل کو ان میں وہ ہچکچاہٹ یا خاموشی نہیں نظر آتی، جو اس وقت کی شروعاتی دور والی اندرا گاندھی میں نظر آتی تھی۔ لیکن ماننا ہوگا کہ ابھی وہ ایک خاتون ابھیمنیو ہیں جسے جنگ کے داو پیچ کی جانکاری ایک طرح سے پیدائشی طور پر حاصل تھی، لیکن جسے موجودہ سیاست میں یقینی طور پر خاص ان کے لیے شورش پسند، منطلق العنان اور عدم برداشت پر مبنی مودی-یوگی کی قیادت والی حریف کے ذریعہ تیار کردہ ہر چکرویوہ سے باہر نکلنے کی اپنی صلاحیت ثابت کرنی ہے۔

نسلوں کی یہ تبدیلی جو کانگریس میں اس سال کے شروع میں صاف نظر آنے لگا ہے، دلچسپ ہے۔ اب تک راجیو گاندھی کے زیادہ تر ہمجولی یا تو وقت سے پہلے چل بسے یا دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔ 2004 میں ایک بریگیڈ کے منتظم رہے منموہن سنگھ وزیر اعظم بن گئے۔ اور آج بھی ان کا وقار اور سادگی برقرار ہے، لیکن وہ بھی اب عمردراز ہیں۔

Published: undefined

نو تسخیر ریاستوں میں میں اس نے نئے لیڈروں کو تجربہ کار لیڈروں کے ساتھ جوڑ کر اشارہ کر دیا ہے کہ کانگریس کے سامنے یہ صاف چیلنج ہے کہ وہ اگلی دہائیوں کے لیے ایک تازہ نسل کو تیار کرے۔ یہی نسل اس کے بنیادی اقدار، یعنی سیکولرزم، سماج واد، برابری اور کثیر جہتی مینڈیٹ والی ترقی کو آگے لے جائے گی۔ ہندوستان کی روایت بھی رہی ہے کہ اس کی سب سے کامیاب حکمراں پارٹی اصلاً روادار، صابر اور غریبوں کے تئیں حساس رہی ہیں۔

موجودہ حکومت نے گزشتہ تقریباً پانچ سالوں میں گاندھی، نہرو، آزاد اور پٹیل کی اس روایت کو بار بار بے دردی کے ساتھ توڑا ہے۔ اقلیتوں اور کام کرنے والی خواتین کو مطمئن رکھنے میں، مزدوروں و کسانوں اور چھوٹے تاجروں کو محنت کا صحیح معاوضہ دینے میں، زبان کے معاملے میں، ریاست کے قانون و انتظام کی مشینری کو خودمختار رکھنے میں سرکار کا نظریہ ایک سخت دل اور مداخلت کرنے والے پولس کی طرح کا ہے جو عوام کے اعتماد نہیں بلکہ اس کے عدم اعتماد اور خوف کے سایہ میں حکومت چلاتا ہے۔ ہمارے لوگ حکومتی استحصال تب بھی ایک حد تک برداشت کر لیتے ہیں، لیکن لفظی پاکھنڈ اور کمزور و لڑکھڑاتے قدم نہیں۔

پرینکا گاندھی انتخاب لڑتی ہیں یا نہیں، یہ ابھی صاف ہونا باقی ہے، لیکن ان کو پارٹی میں یقیناً ہمیشہ اہم عہدہ ملے گا۔ یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ جیسا بھی کام ملے، اس کا اپنے والد کی طرح زندہ دلی اور والدہ کی طرح سنجیدگی سے نبھائیں گی۔ 21ویں صدی کے ہندوستان میں انقلاب اجارہ داری والی حکومت لا سکتی ہے نہ ہی نوکرشاہ، بالی ووڈ فلمیں یا ماہرین معیشت۔ یہ انقلاب تب آئے گا جب کانگریس جیسی بڑی قومی پارٹی نوجوان جوش کے ساتھ سیاسی تعلیم کا ایک عظیم ذریعہ بنے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined