سیاسی

موٹا بھائی! آپ بری طرح ڈر گئے ہو... اعظم شہاب

سیاہ قانون کے تئیں نوٹیفیکیشن جاری کرنا بھی خوف کا ثبوت ہے، یہ خوف اب سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ موٹا بھائی اس خوف سے دوہرے تو نہیں ہوسکتے، لیکن منہ کے بل گِر ضرور سکتے ہیں اور جس کے آثار صاف نظر آرہے ہیں۔

بی جے پی صدر امت شاہ
بی جے پی صدر امت شاہ 

یہ خبر یا یوں کہیں کہ خوشخبری ان بھکتوں کے لیے ہے جو سی اے اے اور این آر سی کی حمایت میں ایک مخصوص نمبر پر مِسڈ کال کرانے کی مہم میں شامل ہیں کہ بہت جلد ان کے لیے فحش ویب سائٹ کی فراہمی سے زیادہ بھی ’کچھ‘ کا انتظام ہوسکتا ہے۔ یہ زیادہ ’کچھ‘ کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ نیچے دی جارہی اسکرین شاٹ سے لگایا جاسکتا ہے، جن میں بی جے پی کی ایک خاتون ورکر اپنے ٹوئٹراکاؤنٹ سے اگر ایک جانب دیپیکا پادوکون کی مخالفت کرتی ہے اور دوسری جانب ’کچھ اور‘ کا بھی آفر کر رہی ہے، بس شرط یہ ہے کہ اس مخصوص نمبر پر مِس کال کی جائے۔ اب آپ سوچ رہے ہون گے کہ یہ مخصوص نمبر کیا ہے؟ تو جو نہیں جانتے ہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ مخصوص نمبر سی اے اے اور این آر سی کی حمایت کرنے کے لیے مِسڈ کال کے لیے جاری کیا گیا ہے جو بی جے پی کا آئی ٹی سیل آپریٹ کررہا ہے۔ ذرا دیکھ لیجیے وہ اسکرین شاٹس

Published: undefined

سی اے اے اور این آر سی کی حمایت کے لیے جاری اس نمبر پر مِسڈ کال کرنے پر ڈوو کمپنی کا شیمپو، وہیل ڈیٹرجینٹ پاوڈر، مہینے بھرکے لیے مفت نیٹ فلکس، مفت انٹرنیٹ ڈاٹا وغیرہ کی فراہمی تک کی باتیں کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں اور اس کے لیے بی جے پی کے کارکنان باقاعدہ شیمپو کے بیگ لے کر مِسڈ کال کراتے نظر آرہے تھے۔ اس مخصوص نمبر کو اپنے موٹا بھائی بھی اپنے ٹوئٹر سے شیئر کرچکے ہیں۔ یہ کئی دنوں سے جاری تھا، لیکن اب اس میں یہ نیا اضافہ ہوا ہے کہ اس نمبر پر مِسڈ کال کرنے پر فحش باتیں کرنے کا بھی آفر دیا جارہا ہے۔ اس لیے جب بات یہاں تک آ پہنچی ہے تو پھر بعید نہیں کہ یہ مہم چلانے والے یہ آفر بھی دینے لگیں کہ اس مخصوص نمبر پر مِسڈ کال کرنے پر فحش ویب سائٹ مفت فراہم کی جائے گی اور پھر یہ سلسلہ کچھ مزید دراز ہوجائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی اپنے ایک سیاسی مقصد کے حصول کے لیے کس حد تک نیچے گرے گی اور عورتوں کے سمان اور سنسکار کی بات کرنے والی یہ پارٹی اس طرح کے گھناونے ہتھکنڈے کیوں اپنانے لگی ہے؟ جبکہ سی اے اے اور این آر سی کے نفاذ میں وہ بتارہی ہے کہ وہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ اور سچائی بھی یہ ہے کہ وہ اسے نافذ بھی کرچکی ہے۔ پھربھلا وہ ایسا کیوں کر رہی ہے؟ تو اس کا جواب اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا کہ بی جے پی حد درجہ ڈری ہوئی ہے۔

Published: undefined

کہا جاتا ہے کہ جھوٹ بلندی پر چڑھ کر اپنے جھوٹ ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ اسی طرح خوف بھی سرچڑھ کر بولتا ہے۔ جس طرح سافٹ ڈرنک کی ڈکار کو روکنے کی کوشش میں چہرے کی ساخت تک تبدیل ہوجاتی ہے، اسی طرح خوف کو چھپانے کی کوشش میں ایسی حرکتیں بھی سرزد ہونے لگتی ہیں جس کا مظاہرہ آج کل بی جے پی کر رہی ہے۔ جی ہاں! جے این یو میں بی جے پی کے محفوظوں کے ذریعہ کیا گیا حملہ بھی اسی خوف کا نتیجہ ہے اور ان سیاہ قوانین کے تئیں ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان بھی اسی کا مظہر ہے۔ ملک میں جاری احتجاجات کو خاطر میں نہ لاکر سی اے اے کے نفاذ کا نوٹیفیکیشن جاری کرنا بھی اسی خوف کا ثبوت ہے اور بی جے پی کے لیڈران کے ذریعے اس کی تمام تر ذمہ داری کانگریس پر تھوپنا بھی اسی کا اعلان ہے۔ یہ خوف اب سرچڑھ کر بول رہا ہے ۔ موٹا بھائی اس خوف سے دوہرے تو نہیں ہوسکتے، لیکن منہ کے بل گر ضرور سکتے ہیں اورجس کے آثار صاف نظر آرہے ہیں۔

Published: undefined

ملک میں ان سیاہ قوانین کے خلاف جو مہم چل رہی ہے، جو احتجاجات ہو رہے ہیں، اس سے بی جے پی بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ یہ اسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے کہ اس نے پہلے تو اے بی وی پی کو میدان میں اتارا، پھر جب اس سے بھی بات نہیں بنی تو اس کے لیڈران پورے ملک میں گھوم گھوم کر کانگریس کو اس کا ذمہ دار قرار دینے لگے، پھربھی بات نہیں بنی تو مخالفت کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی گئی، پھر بھی بات نہیں بنی تو عوامی حمایت کے لیے ایک مخصوص نمبر پر مِسڈ کال کرانے کی مہم شروع کی گئی۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ اس مہم کے تحت تقریباً ستر لاکھ لوگوں نے مِسڈ کال بھی کردی ہے۔ یہ صرف اس لیے کہ ملک کے سامنے ایک ریکارڈ پیش کیا جاسکے کہ سی اے اے اور این آرسی کی مخالفت کرنے والے محض چند لوگ ہیں جبکہ اس کی حمایت کرنے والے کہیں زیادہ ہیں۔ پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ریکارڈ ان سے مانگے گا کون اور اگر کسی مانگنے پر کوئی ریکارڈ فراہم بھی کردیا جائے تو اس کی تصدیق کون کرے گا؟

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined