سیاسی

منی پور تشدد: بی جے پی کو اپنے ہی لوگوں کی پھٹکار!

منی پور تشدد اور خواتین کے ساتھ بربریت پر منی پور کی گورنر انوسوئیا اوئیکے اور بی جے پی لیڈر اوما بھارتی نے بی جے پی و مودی حکومت کو مزید دشواری میں ڈال دیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>پی ایم مودی، تصویر یو این آئی</p></div>

پی ایم مودی، تصویر یو این آئی

 

مراٹھی میں ایک کہاوت ہے ’دَھرلا تر چاوتے، سوڑلا تر دھاوتے‘۔ یعنی پکڑو تو کاٹے اور چھوڑو تو بھاگے۔ اسی کہاوت پر اشوک صراف اور لکشمی کانت بیرڈے کی 1991 میں مراٹھی کی ایک کامیڈی فلم بھی آئی تھی جو کافی مقبول ہوئی تھی۔ پارلیمنٹ کے رواں اجلاس کے دوران منی پور کے حالات نے بی جے پی کی حالت اسی کہاوت کی سی بنا دی ہے۔ اگر پردھان سیوک صاحب پارلیمنٹ میں اس پر بیان دے دیں تو گویا وہ اپنی کوتاہی و نااہلی پر خود ہی مہر لگا دیں گے، اور اگر خاموش رہ جائیں، جیسا کہ ہو رہا ہے تو اپوزیشن پارٹیاں ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گی۔ اسی حالت کو کہتے ہیں ’کریں تو کریں کیا اور بولیں تو بولیں کیا‘۔ یعنی پکڑیں تو کاٹے اور چھوڑیں تو بھاگے۔

Published: undefined

یہ صورت حال کسی پر بھی آ سکتی ہے۔ اس سے نکلنے میں کم از کم گھر والوں کا تو اخلاقی تعاون ملنا ہی چاہئے جس سے تھوڑا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر گھر والے ہی ڈنڈا لے کر پیچھے پڑ جائیں اور ڈانٹنے ڈپٹنے لگ جائیں تو صورت حال کافی تشویشناک ہو جاتی ہے۔ پردھان سیوک صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بی جے پی کی ایک قدآور لیڈر ہیں اوما بھارتی۔ انہوں نے تو باقاعدہ ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا ہے کہ ’’برائے مہربانی منی پور معاملے کا راجستھان و بنگال سے مقابلہ مت کرائیے‘‘۔ انہوں نے سنیچر کو 4 ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’منی پور کا واقعہ بے حد شرمناک ہے۔ پورے سماج اور پورے ملک کی شرمندگی کے ساتھ بس ایک ہی راستہ ہے کہ مجرموں کے خلاف سخت کارروائی ہو۔‘‘

Published: undefined

اوما بھارتی کا یہ بیان بی جے پی کی لائن سے ہٹ کر ہے اور پردھان سیوک کے رویے سے تو قطعاً برخلاف ہے۔ گو کہ انہوں نے اس کے لیے تمام پارٹیوں سے معافی مانگنے کے لیے کہا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں یہ بات کیوں کہنی پڑی؟ ظاہر ہے کہ منی پور میں خواتین کے ساتھ ہوئی بربریت نے انہیں بھی جھنجھوڑ دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب بی جے پی کی پوری آئی ٹی سیل اس کام میں لگی ہوئی ہے کہ منی پور میں خواتین کے ساتھ ہوئی اس حیوانیت کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ اس کے لیے مغربی بنگال پنچایت الیکشن میں ایک خاتون کو برہنہ کیے جانے کی ویڈیو تک یہ لوگ نہایت بے شرمی سے وائرل کرتے رہے۔ لیکن ان سب کے باوجود منی پور واقعے کی سنگینی اپنی جگہ برقرار رہی جس نے اوما بھارتی کو مرکزی حکومت کو لتاڑ لگانے پر مجبور کر دیا۔

Published: undefined

اسی طرح منی پور کی گورنر محترمہ انوسوئیا اوئیکے بھی ہیں، جنہوں نے خواتین کے ساتھ ہوئی اس حیوانیت پر اپنی سخت ناراضگی ظاہر کی۔ یہ گورنر صاحبہ مودی حکومت کی نامزد کردہ ہیں جنہیں اسی سال فروری میں اس عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ انہوں نے بیرین سنگھ حکومت کی جو پھٹکار لگائی ہے، اس نے بی جے پی کو چاروں خانے چت کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے نے مجھے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ منی پور کی گورنر ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتی ہوں کہ یہ پوری ریاست کو ہلا دینے والا ہے۔ میں نے ڈی جی کو حکم دیا ہے کہ جو بھی پولیس والے اس معاملے میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

Published: undefined

گورنر صاحبہ نے مزید کئی باتیں کہیں جن کا لب لباب یہی ہے کہ ریاست و مرکز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ منی پور میں جاری تشدد کو روکے۔ ان کے ذریعے ڈی جی کو خاطی پولیس والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ ریاست کی بیرین سنگھ حکومت نے اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ابھی تک ایسا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ جو باتیں گورنر صاحبہ نے کہی ہیں وہی باتیں تو اپوزیشن بھی کہہ رہا ہے کہ مرکز کی مودی حکومت اور ریاست کی بیرین سنگھ کی حکومت اس تشدد کے بڑھنے کی ذمہ دار ہے۔ اس کوتاہی پر مودی حکومت کو بیرین سنگھ حکومت کو برخاست کر دینا چاہئے۔ اگر مودی حکومت اپوزیشن پرسیاست کرنے کا الزام عائد کر رہی ہے تو پھر گورنر صاحبہ کے بارے میں وہ کیا کہے گی؟ کیا وہ بھی سیاست ہی کر رہی ہیں؟ پیوش گویل اور روی شنکر پرساد کیا مہامہم گورنر کے بارے میں کہیں گے کہ وہ منی پور کے حوالے سے ملک کو بدنام کر رہی ہیں؟

Published: undefined

بی جے پی کی ایک اور لیڈر ہیں محترمہ اسمرتی ایرانی۔ ان کا کہنا ہے کہ منی پور کی ویڈیو اپوزیشن کے پاس پہلے سے موجود تھی اور جیسے ہی پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کا وقت آیا، اس نے اسے وائرل کر دیا۔ منی پور کے افسردہ ماحول میں محترمہ کا یہ بیان سن کر بہتوں کو ہنسی آگئی ہوگی کہ اگر یہ ویڈیو اپوزیشن کے پاس تھی تو کیا مودی حکومت کے پاس نہیں تھی؟ مودی حکومت کو بھی چھوڑیئے، کیا منی پور حکومت کے پاس بھی نہیں تھی جس کی پولیس نے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کی تھی؟ اگر تھی تو بی جے پی کی مرکزی و ریاستی حکومت نے کارروائی کرنے کے لیے اپوزیشن کی جانب سے اس کے وائرل کیے جانے کا انتظار کیوں کیا؟

Published: undefined

سچائی یہ ہے کہ منی پور کے واقعے نے خواتین کے تئیں بی جے پی کی کرنی اور کتھنی کے فرق کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ پردھان سیوک سے لے کر بی جے پی آئی ٹی سیل تک نے منی پور کے بالمقابل راجستھان، چھتیس گڑھ و بنگال کی خوب تشہیر کی۔ اس کا مقصد بس یہ تھا کہ اس کے پردے میں منی پور کی سنگینی کو دبایا جا سکے اور یہ بتایا جا سکے کہ اگر منی پور میں اس طرح کا واقعہ ہوا ہے تو کیا ہوا، بنگال میں بھی تو ہوا ہے۔ لیکن منی پور پر بنگال و راجستھان کا پردہ ڈالنے والوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ وہاں کی حکومتیں منی پور کی طرح مجرموں کو بچا نہیں رہی ہیں۔

(یہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined