سیاسی

’لکھنؤ اسپیکرس کانفرنس‘ نشستند، گُفتند و برخاستند... نواب علی اختر

لکھنؤ کانفرنس نے اسپیکر سے جو بیزاری ظاہر کی ہے اس کا اصل سبب یہی ہے کہ بی جے پی نے جو چال چلی تھی وہ تقریباً ناکام ہوگئی تھی لیکن ہائی کورٹ نے لاج رکھ لی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی حکومت کے پاس موجودہ وقت میں اتنی خطیر رقم ہے جتنی ماضی میں شاید ہی کسی حکومت کے پاس رہی ہو۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ادارہ کی ایما پر مسلسل تین روز(36 گھنٹے) تک اسمبلی کا خصوصی اجلاس ہوا۔ اس سلسلے میں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کانفرنس میں عوامی اہمیت کی کون سی مثبت پیش رفت ہوئی ہے؟ اس کے بعد بابائے قوم مہاتما گاندھی جی کی جینتی کے نام پر اسمبلی کا ایک دن کا خصوصی اجلاس بھی بلایا گیا۔ اس کے بعد اب دولت مشترکہ کے ٹھپّے والی پارلیمانی اسمبلی کانفرنس 19جنوری تک لکھنؤ میں ہوئی۔ اس کانفرنس میں اسمبلی اسپیکروں کی فوج موجود تھی اس کے علاوہ بہت سے عہدیدار اور ممبران اسمبلی شریک ہوئے۔

Published: 19 Jan 2020, 8:11 PM IST

کامن ویلتھ پارلیمنٹری ایسوسی ایشن انڈیا (سی پی اے) ریجن کی7 ویں کانفرنس سے فرصت پانے کے بعد بیشتر لوگ ایودھیا گئے ہیں جہاں وہ رام لَلّٰہ کے درشن کریں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اتنی بہت سی اعلیٰ شخصیات ایودھیا گئی ہیں۔ اس کانفرنس کے اجلاس کے اخراجات کا اگر کوئی تخمینہ لگایا جائے تو وہ کروڑوں روپئے میں پہنچے گا۔ لکھنؤ میں جو کانفرنس حال میں ہوئی ان میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا صرف بحث ہوئی یعنی۔ نشستند، گفتند و برخاستند۔

Published: 19 Jan 2020, 8:11 PM IST

کانفرنس میں زیر بحث آنے والے دو خاص امور کا تذکرہ اس تحریر میں ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مجالس قانون ساز سے متعلق جب بھی کوئی کانفرنس ہوئی تو اسپیکر کو ہمیشہ قابل احترام درجہ دیا جاتا تھا لیکن اب ایک انوکھی روایت قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی زد میں اسپیکر بھی آگئے ہیں۔ لکھنؤ کی حالیہ کانفرنس کے روح رواں لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا رہے جن کا اس عہدہ کے لئے بطور خاص وزیراعظم نے نئی لوک سبھا کے واسطے کیا تھا۔ وہ بی جے پی کے بھی نمایاں ترجمان ہیں۔

Published: 19 Jan 2020, 8:11 PM IST

لکھنؤ کانفرنس کے تعلق سے انہوں نے کانفرنس کے اختتام پر بتایا کہ مختلف ریاستوں کے پریسائیڈنگ افسروں (اسپیکروں) نے اس امر پر تبادلہ خیال کیا اور تقریباً عملاً اس بات پر متفق ہوئے کہ اسپیکروں کو جو لامحدود اختیارات حاصل ہیں ان میں کمی اس وقت کی جائے جب وہ پارٹی تبدیلی روک تھام قانون کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔ برلا کے دعوے کے مطابق عدلیہ تک نے کبھی بھی اسپیکروں کے لامحدود اختیارات کے بے جا استعمال کے بارے میں تبصرے نہیں کیے۔ بہرحال اب اسپیکروں میں اس بارے میں اتفاق عام ہے کہ اسپیکروں کے اختیارات میں کتربیونت سے کام لیا جائے۔

Published: 19 Jan 2020, 8:11 PM IST

حالانکہ اوم برلا نے یہ نہیں بتایا کہ اس کام کو کون انجام دے گا لیکن یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اسپیکروں کے خلاف اس قسم کی اظہار رائے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی۔ ماضی میں اسپیکر کو مقننہ کا امین سمجھا جاتا رہا تھا اور جب عدلیہ سے کوئی کشا کش نہ ہوتی تھی تو اسپیکر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کے اختیارات سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاسکتی۔ جمہوریت میں انتظامیہ اور عدلیہ کے علاوہ مقننہ بھی ایک ستون ہے۔

Published: 19 Jan 2020, 8:11 PM IST

بی جے پی والے اسپیکر نے جس بات کا ذکر کیا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی عرصہ سے یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ وہ وہاں اقتدار پر قبضہ کرلے۔ وجہ یہ ہے کہ جنوب کی کسی ریاست پر اس پارٹی کا قبضہ عام طور پر نہیں ہوتا تھا، اس لئے ضروری ہے کہ جائز یا ناجائز ذریعہ سے ریاست کے اقتدار پر قبضہ حاصل کیا جائے۔ کرناٹک اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں جب کانگریس اور جنتادل (سیکولر) نے متحدہ محاذ بنایا تو بی جے پی کے لئے خطرہ کی گھنٹی بج اٹھی۔

Published: 19 Jan 2020, 8:11 PM IST

ایسی صورت میں ایک ایسا فارمولا تیار کیا گیا جس کی نظیر ہندوستان کے کسی علاقہ کی پارلیمانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مخلوط پارٹی کے15ممبران اسمبلی کو خریدا گیا کہ وہ اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیں تاکہ محاذ اقلیت میں آجائے۔ ظاہر ہے اسمبلی کی رکنیت بہت قیمتی چیز ہے اور ان کو استعفیٰ دینے کے لئے خطیر رقم خرچ کی گئی لیکن اسپیکر نے ان تمام ممبران کو پارٹی تبدیلی قانون کے تحت نا اہل قرار دے دیا۔ اس طرح وزیراعلیٰ یدی یورپا بہت پریشان ہوئے اور معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ کے پاس گیا۔ ہائی کورٹ نے ان تمام ممبروں کی نااہلی ختم کردی اور ان کو ضمنی انتخابات لڑنے کا اختیار دے دیا۔ یہی نہیں ہائی کورٹ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ جیت جاتے ہیں تو وزیر بن سکتے ہیں۔

Published: 19 Jan 2020, 8:11 PM IST

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اسپیکر نے نااہلی پانچ سال کے لئے کی تھی جو بالکل واجب بات تھی لیکن عدالت عالیہ نے نااہلی کی مدت کم کردی۔ لکھنؤ کانفرنس نے اسپیکر سے جو بیزاری ظاہر کی ہے اس کا اصل سبب یہی ہے کہ بی جے پی نے جو چال چلی تھی وہ تقریباً ناکام ہوگئی تھی لیکن ہائی کورٹ نے لاج رکھ لی۔ ضمنی انتخابات میں یہ لوگ دوبارہ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور وزیر بھی بنائے گئے۔

Published: 19 Jan 2020, 8:11 PM IST

لکھنؤ کانفرنس نے یہ طے کیا ہے کہ مجالس قانون ساز میں جو ہنگامے ہوتے ہیں اور ایوان کی کارروائی میں جو خلل پڑتا رہتا ہے اسے روکنے کے لئے باقاعدہ ضابطے بنائے جائیں۔ بی جے پی کو 2014 میں جب سے اقتدار حاصل ہوا ہے، اس وقت سے اس کی کوشش یہی رہی ہے کہ پارلیمنٹ کا کام خوش اسلوبی سے چلے اور کوئی ہنگامہ نہ ہو لیکن اگر 2014 کے پہلے کی پارلیمنٹ کی طرف توجہ کی جائے کہ منموہن سنگھ حکومت کے دوسرے دور میں اسی بی جے پی نے ایسے ہنگامے برپا کیے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ لال کرشن اڈوانی نے کہا کہ ہم ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے اور اس کے بعد رخنہ اندازی کی تمام کارروائیوں کی باگ ڈور سشماسوراج کے سپرد ہوئی تھی اس تحریر میں جن ہنگاموں اور ہڑدنگ کا ذکر کیا گیا ہے، اس کی تصدیق پرانے ریکارڈ نکلواکر کی جاسکتی ہے۔

Published: 19 Jan 2020, 8:11 PM IST

کل کو جب بی جے پی اقتدار سے باہر ہوگی تو دونوں مذکورہ بالا امور پر اس کی رائے بالکل بدل جائے گی۔ وہ اسپیکر کے اختیارات پر اصرار کرے گی اور مزید یہ کہ پارلیمنٹ میں ہڑدنگ کو جائز جمہوری حق بھی بتائے گی۔ حکومت بدلے گی تو پیمانے بھی بدلیں گے۔

Published: 19 Jan 2020, 8:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 19 Jan 2020, 8:11 PM IST