سیاسی

بی جے پی فوج کو سامنے رکھ کر لڑے گی الیکشن...عبید اللہ ناصر

انتخابات کو لے کر ٹی وی پر ہو رہے مباحثوں اور خبروں کی زبان کا معیار اس قدر گر گیا ہے کہ اب ٹی وی کھولنے کا بھی جی نہیں چاہتا، خود وزیر اعظم کا لب و لہجہ ان کے عہدہ اور شخصیت کی شایان شان نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

پلوامہ المیہ اور اس کے جواب میں دہشت گردوں کے خلاف ہندستانی فضائیہ کی کارروائی نے ملک کا سیاسی منظر نامہ وقتی طور سے ہی صحیح بدل تو دیا ہے، کسی بھی حکومت کو اس کارروائی کا سیاسی فائدہ ملتا، لیکن چونکہ بی جے پی اور خاص کر وزیر اعظم نریندر مودی کو اس معاملہ میں خاص مہارت حاصل ہے، دوسرے میڈیا کی انھیں غیر مشروط حمایت حاصل ہے اس لئے پورے ملک میں قوم پرستی نہیں بلکہ جارحانہ قوم پرستی کا ابال آیا ہوا ہے، اس سے سب سے زیادہ متاثر ہندی بیلٹ اور وہ بھی اتر پردیش ہے، بی جے پی جسے 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں 80 میں سے 73 سیٹیں ملی تھیں اس بار اکھلیش، مایا اور اجیت سنگھ کے گٹھ جوڑ کے ساتھ ساتھ نئی ابھرتی ہوئی کانگریس خاص کر پرینکا گاندھی کی سیاست میں آمد اور مشرقی اتر پردیش کی ذمہ داری ملنے سے خود کو مشکل میں پا رہی تھی-

اندرونی خبریں بھی تھیں کہ اس بار بی جے پی کو اتر پردیش سے بمشکل 20 سے 25 سیٹیں ہی مل سکتی ہیں، بہار میں حالانکہ اس نے نتیش کمار سے دب کر سمجھوتہ تو کر لیا ہے پھر بھی اسے وہاں سے 10-12 سیٹوں سے زیادہ کی امید نہیں دکھائی دے رہی، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں جہاں اس نے ریاست کی سبھی پارلیمانی سیٹوں پر پچھلی بار قبضہ کر لیا تھا وہاں ابھی حال میں ہوئے اسمبلی الیکشن میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، سب سے مضبوط قلعہ گجرات کو بچانے میں بھی اسے دانتوں پسینے آگئے تھے اس طرح تمام سیاسی ماہرین کا خیال تھا کہ کسی بھی صورت میں بی جے پی اس بار 200 سیٹیں بھی نہیں حاصل کر سکے گی-

جہاں تک انتخابی موضوعات کی بات ہے بیروزگاری، کسانوں اور تاجروں کی پریشانیاں، گرتا ایکسپورٹ، کنگال ہوتے بنک بطور مجموعی تباہ حال معیشت بی جے پی حکومت کے سامنے سب سے بڑا مسلہ ہے، اس نے رام مندر کے جذباتی مسئلہ کو ابھارنے کی کوشش کی مگر ایودھیا اور دہلی میں اس کا شو سپر فلاپ ثابت ہوا، جس سے صاف تھا کہ عوام اب اس مسئلہ پر بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آنے والے ہیں، حکومت نے کسانوں کو خوش کرنے کے لئے ان کے کھاتے میں پہلی قسط کا دو ہزار روپیہ بھجوانے کا ٹوٹکا کیا، لیکن ٹھیکے پر کھیتی کرنے والوں اور کھیت مزدوروں کو نذر انداز کرنے کی وجہ سے یہ اسکیم نہ صرف نا کام ہو رہی ہے بلکہ اس کے الٹے نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔

ان حالات میں پلوامہ المیہ اور فوجی کارروائی کے ذریعہ عوام کے حب الوطنی کے جذبات ابھار کر اس کا سیاسی فائدہ لینا مودی جی اپنے لئے ماسٹر اسٹروک سمجھ رہے ہیں اسی لئے اپنے کارکنوں اور میڈیا کو چوبیسوں گھنٹے اسی کی پبلسٹی پر لگا دیا ہے، ٹی وی مباحثوں میں بی جے پی کے ترجمان اور سبکدوش فوجی افسران الفاظ کے وہ وہ بم داغ رھے ہیں کہ الله کی پناہ، جنگ کے اثرات اور اس کی تباہ کاریوں کو یکسر نظر انداز کر کے بس سبق سکھانے، بدلہ لینے اور مار کاٹ کی باتیں ہوتی ہیں، صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ سب کچھ ایک ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے۔

اسی دوران گفتگو، مباحثوں اور خبروں کی زبان کا معیار ایسا گر گیا ہے کہ ٹی وی کھولنے کا بھی جی نہیں چاہتا، خود وزیر اعظم نریندر مودی جس زبان لب و لہجہ کا استعمال کر رہے ہیں وہ ان کے عہدہ اور شخصیت کی شایان شان نہیں، امت شاہ جیسے لیڈروں سے تو خیر سچ اور شریفانہ لہجہ کی امید ہی نہیں کی جا سکتی، ظاہر ہے کہ جب پارٹی کی اعلی قیادت سڑک چھاپ زبان استعمال کرے گی تو عام کارکنوں اور سوشل میڈیا پر ان کے گالی بازوں (ٹرالس) سے کسی شریفانہ لب و لہجہ کی امید کرنا ہی حماقت ہوگی۔

جب حکمران جماعت اس پیمانہ پر انتخابی تیاریاں کر رہی ہو تو حزب اختلاف کو بھی اپنی صفوں کو درست کرنے کی جد وجہد کرنی ہی پڑے گی، سبھی جانتے ہیں کہ کوئی ایک پارٹی اپنے دم پر بی جے پی کو نہیں ہرا سکتی، خود بی جے پی کے رہنما باتیں چاہے جتنی لمبی چوڑی کریں وہ بھی جانتے ہیں کہ تمام ترسیاسی ٹوٹکوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود اس بار کا الیکشن ان کے لئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا اس لئے وہ بھی دب کر علاقائی پارٹیوں سے سمجھوتہ کر رہی ہے، لیکن علاقائی پارٹیوں کی سیاست سمجھ پانا ذرا مشکل ہو رہا ہے، وہ بی جے پی کو ہرانے اور نریندر مودی سے ملک کو نجات دلانے کی بات تو کرتی ہیں لیکن کسی بھی طرح اپنا سیاسی مفاد بھی ترک نہیں کرنا چاہتی ہیں ہر علاقائی پارٹی کانگریس کو زیادہ سے زیادہ دبا کر اس سے سمجھوتہ کرنا چاہتی ہے۔

Published: undefined

ان کا گیم پلان یہ ہے کی کانگریس کو 100 سیٹوں کے آس پاس ہی رہنے دیا جائے تاکہ حکومت سازی کے موقعہ پر اس سے اچھی طرح سودے بازی کرکے وزیر اعظم کی کرسی ہتھیا لی جائے، کانگریس کے سامنے مجبوری یہ ہے کہ وہ مودی سے ملک کو نجات تو دلانا چاہتی ہے مگر اپنا وجود بچائے رکھنے اور اپنے کارکنوں کو مطمئن رکھنے کے لئے وہ زیادہ سیٹیں چھوڑ کر اپنے ریاستی دفتروں میں تالا تو نہیں ڈلوا سکتی ہے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کانگریس کو اتر پردیش میں محض دو سیٹوں پر اکتفا کر کے باقی سیٹیں ان پارٹیوں کے لئے چھوڑ دے جو ماضی میں بی جے پی کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ دوستی نبھا چکی ہیں، تو یہ کانگریس کے ساتھ نا انصافی نہیں تو اور کیا ہے اور کوئی گارنٹی نہیں کہ کون علاقائی پارٹی حکومت سازی کے وقت کس کے ساتھ چلی جائے گی، اگر کسی پر اعتماد کیا جا سکتا ہے تو وہ صرف لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل اور کمیونسٹ پارٹیاں ہیں۔ کانگریس اگر 150 سیٹیں نہیں حاصل کر پائیگی تو بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کی حکومت بننے سے روک پانا بہت مشکل ہو جائے گا، اس لئے جو لوگ کانگریس کو بہت دب کر سمجھوتا کر لینے کا مشورہ دے رہے ہیں انھیں تصویر کا یہ دوسرا اور منفی رخ بھی دیکھنے کی زحمت کرنی چاہیے۔

ادھر بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کرنے اور اکھلیش یادو کو سیاسی بن باس بھیجنے کم لئے پوری طرح دلجمئی سے لگی ہوئی ہیں، سابقہ پارلیمانی الیکشن میں انھیں ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی حالانکہ ان کے ووٹوں کا تناسب قریب 21 فیصدی برقرار رہا تھا اور 37 سیٹوں پر دوسرے نمبر آئی تھیں، سماج وادی پارٹی کو 5 سیٹیں ملی تھیں اور اس کا ووٹ تناسب بھی قریب قریب برقرار تھا۔اسمبلی الیکشن میں بھی مایاوتی کو زبردست جھٹکا لگا تھا چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ان کا ووٹ شیئر ہر الیکشن میں کم ہو رہا ہے، ان سب کے باوجود انہوں نے نہ صرف اتر پردیش میں اکھلیش کو دبا کے سمجھوتہ کیا بلکہ مدھیہ پردیش میں تو ان کو بالکل صاف ہی کر دیا، مایاوتی کی وجہ سے ہی اتر پردیش میں کانگریس کو اس گٹھ بندھن میں نہیں شامل کیا گیا اور اجیت سنگھ کو محض تین سیٹوں پر ٹرخا دیا گیا، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹوں کی قیمت اچانک آسمان پر پہنچ گئی، کہا جاتا ہے کہ اس وقت مایاوتی بیس کروڑ روپیہ سے زیادہ لے کر ٹکٹ دے رہی ہیں، ان کی یہ بھی کوشش ہے کہ کانگریس 100 کے نیچے اور وہ خود 50 سے اوپر پہنچ جائیں، تبھی وہ وزیر اعظم کی کرسی پر مضبوطی سے دعویٰ کر سکیں گی۔

ادھر اکھلیش یادو کے اس طرح سے سرینڈر کرنے سے ملائم سنگھ یادو اور پرانے سماج وادی لیڈران ہی نہیں خود اکھلیش یادو کی نوجوان ٹیم میں بھی ناراضگی پائی جاتی ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مایاوتی کو زیادہ طاقتور کر کے اکھلیش نہ صرف اس پارلیمانی الیکشن میں پارٹی کو دوسرے نمبر پر رکھ رہے ہیں جس کا خمیازہ آنے والے اسمبلی الیکشن میں پارٹی کو بھگتنا پڑے گا۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ پارلیمانی الیکشن کے بعد ہی مایاوتی اپنا اصلی رنگ دکھانا شروع کر دینگی، اس لئے سماج وادی پارٹی کے پرانے لیڈران شیوپال یادو کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں، دوسری جانب بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی کے جن لیڈران کے سمجھوتہ کی وجہ سے ٹکٹ کٹ رہے ہیں یا جو مایاوتی سے ٹکٹ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے وہ کانگریس کو ترجیح دے رہے ہیں، ابھی دونوں پارٹیوں کے کئی سینئر لیڈران نے کانگریس جوائن کرلی ہے جن میں متعدد موجودہ ممبران پارلیمنٹ اور اسمبلی بھی شامل ہیں۔

بی جے پی خاص کر وزیر اعظم نریندر مودی اس بار عام انتخابات کو وسائل کے بیہودہ مظاہرہ، مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طاقت، بد زبانیوں اور جارحانہ انداز کی بنا پر اب تک کا سب سے مختلف الیکشن بنا دیں گے، ایک عالمی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق اس بار ہندوستان کے عام انتخابات دنیا کا سب سے منہگا الیکشن ہوگا۔ دوسری پارٹیاں بھی اپنے تمام تر وسائل جھونک کر بھی بی جے پی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی اب دیکھنا ہے کہ مالی طاقت اور عوامی طاقت کے درمیان ہونے والی اس جنگ کا انجام کیا ہوگا لیکن جو بھی اس وقت ہو رہا ہے وہ ہماری جمہوریت کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بن رہا ہے-

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined