سیاسی

پہلے مرحلہ کے آخری لمحات میں بہار کا انتخابی ماحول تبدیل، مہاگٹھ بندھن کی پوزیشن ہوئی مزید مستحکم... عتیق الرحمٰن

اسمبلی انتخاب کے پہلے مرحلہ کے تحت 6 نومبر کو 18 اضلاع کے 121 اسمبلی حلقوں میں ہونے والی پولنگ سے چند گھنٹوں قبل یعنی انتخابی مہم کے بالکل آخری لمحات میں بہار کا انتخابی ماحول اچانک تبدیل ہو گیا۔

<div class="paragraphs"><p>ایک انتخابی جلسہ کے دوران پرینکا گاندھی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

ایک انتخابی جلسہ کے دوران پرینکا گاندھی، تصویر سوشل میڈیا

 

وزیر اعظم نریندر مودی نے بہار کے اسمبلی انتخاب کے پیش نظر تشہیری مہم میں اپنا پورا زور لگا دیا ہے۔ پہلے مرحلہ میں 8 انتخابی جلسوں سے انھوں نے خطاب کیا، جس میں اپنی والدہ کی توہین کا معاملہ اٹھایا، بہار سے بنگلہ دیشی دراندازوں کو بھگانے کا اعلان کیا، جنگل راج کا نام لے کر عوام کو ڈرایا گیا۔ انھوں نے مرکز و ریاست کی ڈبل انجن حکومتوں کی نام نہاد حصولیابیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ دوسری طرف مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے ذریعہ بار بار انتخابی جلسوں میں دراندازی کے معاملے کو زور و شور سے اٹھایا گیا۔ ہارڈ کور سمجھے جانے والے یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی درجنوں انتخابی جلسوں سے خطاب کر کے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی۔ دیگر بی جے پی رہنمائوں کے ذریعہ بھی اسی طرح سے ماحول کو گرم کرنے اور بہار میں ہندو۔مسلم اور مندر-مسجد کے نام پر ووٹوں کے پولرائزیشن کی کوشش ہوئی۔ ان لیڈران نے ہندو ووٹرس کو مشتعل کر کے اپنی حمایت میں کرنے کی ہرممکن کوشش کی، لیکن ان سب کے باوجود بی جے پی کے تمام حربے پہلے مرحلہ کی انتخابی مہم کے دوران ناکام ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہندو آبادی مشتعل ہونے کے بجائے بہت ہی پُرمن اور غیر جانبدار دکھائی دے رہی ہے۔

Published: undefined

اسمبلی انتخاب کے پہلے مرحلہ کے تحت 6 نومبر کو 18 اضلاع کے 121 اسمبلی حلقوں میں ہونے والی پولنگ سے چند گھنٹوں قبل یعنی انتخابی مہم کے بالکل آخری لمحات میں بہار کا انتخابی ماحول اچانک تبدیل ہو گیا۔ اقتدار میں تبدیلی سے متعلق عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے مہاگٹھ بندھن کی تمام پارٹیوں نے اپنے اختلافات و گلے شکوے مکمل طور پر ختم کر لیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان پارٹیوں میں زبردست اور غیر معمولی اتحاد دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اقتدار کے حصول کے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مہاگٹھ بندھن کی سبھی پارٹیاں ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہو گئی ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال دربھنگہ ضلع میں دیکھنے کو ملی جہاں گورا بورام سیٹ پر وی آئی پی امیدوار سنتوش سہنی نے اتحادی جماعت آر جے ڈی کے امیدوار افضل علی خان کی حمایت کر دی اور خود کو انتخابی دور سے باہر کر لیا۔ اب گورابورام سیٹ پر سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا خطرہ ختم ہو گیا ہے اور مہاگٹھ بندھن کے واحد مشترکہ امیدوار افضل علی خان کی فتح کی راہ انتہائی آسان ہو گئی ہے۔

Published: undefined

ووٹنگ سے محض 48 گھنٹے پہلے لیے گئے اس حیرت انگیز فیصلہ سے پورے بہار کے عوام میں ایک بڑا اور مثبت پیغام پہنچ گیا ہے۔ پوری انتخابی فضا ہی اچانک تبدیل ہو گئی ہے۔ سماجی انصاف و سیکولر اصول و نظریات کے حامل ووٹروں میں اتحاد مضبوط ہو گیا ہے۔ وہ مہاگٹھ بندھن کے حق میں ووٹ دینے کے لیے متحد و منظم ہو گئے ہیں۔ مہاگٹھ بندھن کی تمام پارٹیوں کے کارکنان و حامی بھی بے پناہ جو ش و خروش کے ساتھ اپنے اپنے حلقوں میں مہاگٹھ بندھن امیدواروں کو کامیاب بنانے کے لیے پوری قوت جھونک رہے ہیں۔

Published: undefined

واضح ہو کہ آر جے ڈی سے ٹکٹ ملنے کے بعد افضل علی نے گورابورام اسمبلی حلقہ سے پرچہ نامزدگی داخل کیا تھا اور زور و شور سے انتخابی مہم بھی منگل تک چلائی تھی۔ چونکہ یہ سیٹ وی آئی پی کے حصے میں چلی گئی تھی، اس لیے اتحادی جماعت وی آئی پی کے ٹکٹ پر سنتوش سہنی نے بھی پرچہ داخل کر دیا تھا اور وہ بھی انتخابی میدان میں کود گئے تھے۔ اس سے مہاگٹھ بندھن کے حامیوں و ووٹرس اور کارکنان میں تذبذب والے حالات پیدا ہو گئے تھے۔ آر جے ڈی صدر لالو پرساد نے فوراً ایکشن لیتے ہوئے اپنی پارٹی کے امیدوار افضل علی خان کو پرچہ واپس لینے کا حکم دیا، مگر افضل نے پرچہ واپس نہیں لیا۔ بعد ازاں نے انہیں پارٹی سے نکال دیا۔ اس کے باوجود حلقہ کے لوگوں میں مہاگٹھ بندھن امیدوار سے متعلق غلط فہمی جاری تھی۔ کوئی افضل علی کو مہاگٹھ بندھن امیدوار تصور کر رہا تھا، تو کوئی وی آئی پی امیدوار سنتوش سہنی کو۔ تذبذب والی حالت کو دیکھ کر وی آئی پی سربراہ مکیش سہنی نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور بڑی سیاسی حکمت عملی تیار کی۔ انھوں نے 4 نومبر کو مشترکہ پریس کانفرنس کر کے اپنے بھائی سنتوش سہنی کے بیٹھ جانے اور انتخابی دور سے باہر ہو جانے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ آر جے ڈی امیدوار افضل علی کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے حلقہ میں اپنی پارٹی کے تمام کارکنوں و حامیوں اور پورے عوام سے مہاگٹھ بندھن کے مشترکہ امیدوار افضل علی کو ووٹ دے کر کامیاب بنانے کی اپیل کر دی۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ محض کچھ سیٹ جیت لینا ہمارا نشانہ نہیں ہے، بلکہ ہرحال میں مہاگٹھ بندھن کی حکومت بنانا اصل مقصد ہے، جس کے لیے وہ کوئی بھی قربانی دے سکتے ہیں۔

Published: undefined

ادھر مسلم دانشوروں اور علمائے کرام کے درجنوں چھوٹے بڑے وفود نے بہت خاموش انداز میں سیمانچل اور متھلانچل سمیت خصوصی طور پر پہلے مرحلہ کی 121 سیٹوں پر مسلمانوں کے درمیان زبردست بیداری مہم چلائی اور انہیں ہر قیمت پر فرقہ پرست قوتوں کو شکست دینے اور متحد و منظم ہو کر مہاگٹھ بندھن کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی۔ انہیں حالات کی نزاکت سے واقف کرایا جس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور مسلمانوں میں اس کا گہرا پیغام پہنچا ہے۔ امارت شرعیہ کی بھی کئی ٹیمیں خاموش انداز میں ریاست کی انتخابی مہم میں سرگرم ہیں۔ اس طرح 121 میں سے تقریباً 75 سیٹوں پر مہاگٹھ بندھن کے امیدواروں کی فتح کی راہیں ہموار ہوتی نظر آ رہی ہیں اور تقریباً ڈیڑھ درجن سیٹوں پر این ڈی اے کے ساتھ کانٹے کی ٹکر ہے۔ ان میں بھی ایک درجن سیٹوں پر مہاگٹھ بندھن کے امیدوار سبقت حاصل کرتے نظر آ رہے ہیں۔ گورابورام سے جو پیغام نکلا ہے، وہ بہت ہی موثر ہوتا جا رہا ہے اور تمام حلقوں میں مسلم ووٹر کے ساتھ ساتھ یادو اور کئی انتہائی پسماندہ ذاتوں کے ووٹر بھی متحد ہو گئے ہیں۔ اس سیاسی ماحول سے مہاگٹھ بندھن کی طاقت کافی بڑھ گئی ہے۔

Published: undefined

قابل ذکر ہے کہ پہلے مرحلہ کے انتخابات کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے 8 اور دیگر بی جے پی رہنماؤں نے مجموعی طور پر 284 انتخابی جلسوں سے خطاب کیا، وہیں اتحادی جماعت جے ڈی یو کے صدر نتیش کمار نے 41 جلسوں سے خطاب کیا۔ اپنی انتخابی تشہیر کے لیے بی جے پی نے 9 ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا، جو کہ دیگر پارٹیوں سے کافی زیادہ ہے۔ دوسری طرف 2 ہفتے تاخیر سے انتخابی مہم میں سرگرم ہونے کے باوجود مہاگٹھ بندھن کے وزیر اعلیٰ چہرہ تیجسوی یادو نے ڈیڑھ ہفتے کے اندر 96 انتخابی جلسوں سے خطاب کیا اور طلبا و خواتین کا دل جیت لینے کی بھرپور کوشش کی۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے 9، پرینکا گاندھی نے 5 اور ملکارجن کھڑگے نے ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کیا۔ پرینکا نے ایک روڈ شو بھی کیا جبکہ کھڑگے نے ایک بڑی پریس کانفرنس کی۔ سی پی آئی سربراہ ڈی راجہ سمیت پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے 60، سی پی آئی ایم سربراہ ایم اے بے بی سمیت پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے 36 اور سی پی آئی ایم ایل سربراہ دیپانکر بھٹاچاریہ سمیت پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے 74، یعنی بایاں محاذ کے رہنماؤں نے مجموعی طور پر 170 انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاگٹھ بندھن کی طرف سے تیجسوی صرف ایک ہیلی کاپٹر کا استعمال کر کے بی جے پی کے 9 سمیت پورے این ڈی اے کے 30 ہیلی کاپٹروں کا نہ صرف تعاقب کرنے بلکہ اس پر سبقت لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے ایک ایک دن میں 18-18 اسمبلی حلقوں میں پہنچ کر بڑے بڑے انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ اس طرح کھڑگے، راہل، پرینکا، لالو اور تیجسوی کی انتخابی مہم این ڈی اے کی مہم پر بھاری پڑ گئی۔

Published: undefined

واضح رہے کہ 6 نومبر، یعنی جمعرات کو بہار کے 18 اضلاع پٹنہ، نالندہ، بھوجپور، بکسر، شیخ پورہ، لکھی سرائے، بیگو سرائے، کھگڑیا، مونگیر، سہرسہ، مدھے پورہ، دربھنگہ، مظفرپور، سمستی پور، سارن، سیوان، گوپال گنج اور ویشالی کے 121 اسمبلی حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے جہاں 3 کروڑ 75 لاکھ 302 ووٹرس کے لیے 45341 پولنگ مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ مرکزی نیم فوجی دستوں کی 500 کمپنیوں یعنی تقریباً 63 ہزار جوانوں کو تعینات کر دیا گیا ہے، جبکہ ضلع مسلح پولیس کے جوان بھی ہر بوتھ پر تعینات کیے گئے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں 1314 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ای وی ایم میں قید ہو جائے گا۔ 5 حلقوں مونگیر، جمال پور، تاراپور، سمری بختیار پور اور مہیسی کے تمام بوتھوں پر جبکہ سورج گڑھا کے 56 بوتھوں پر ایک گھنٹہ قبل یعنی 7 بجے صبح سے 5 بجے شام تک ووٹنگ مکمل کرا لی جائے گی۔ دونوں نائب وزرائے اعلیٰ سمراٹ چودھری اور وجئے سنہا سمیت 15 ریاستی وزراء کا وقار اس مرحلہ میں داؤ پر لگا ہوا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined