شاعری

’ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی‘

بیک وقت لفظی جمالیات سے مرصع اور زندگی کی تلخیوں سے لبریز اشعار تخلیق کرنے والے نابغہ روزگار شاعر جون ایلیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پڑھنے والوں کے قریب تر آتے جا رہے ہیں۔

ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی
ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی 

آج آٹھ نومبر کو جون ایلیا کو اس دنیا سے رخصت ہوئے سولہ برس ہو گئے۔

Published: undefined

جون ایلیا نے اپنی زندگی میں کہا تھا:

Published: undefined

فکر مر جائے تو پھر جون کا ماتم کرنا

Published: undefined

ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی

Published: undefined

جون ایلیا کی اسی بات کو دہراتے ہوئے معروف شاعر، صحافی اور جون صاحب کے قریبی رفقاء میں سے ایک عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ جون کی شاعرانہ تب و تاب اپنی جگہ لیکن فلسفے اور تاریخ پر دسترس میں بھی اُن کے ہمعصروں میں اُن کا مقام انفرادیت کا حامل ہے۔

Published: undefined

عقیل عباس جعفری نے جون ایلیا کے ساتھ گزرے ایام کو یاد کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک گفتگو میں بتایا، ’’کچھ لوگ عام طور پر جون بھائی کی کامیابی کا سبب ان کی وضع قطع، مشاعروں میں پڑھنے کا ڈھب اور اُن کے رومانوی قطعات کو بتاتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سب نہ ہوتا تو بھی جون اتنے ہی بڑے اور توانا شاعر ہوتے۔ انہوں نے غزل میں بالکل سامنے کے تجربات کو جس پرکاری کے ساتھ تحریر کیا، وہ اُنہی کا خاصا تھا۔‘‘

Published: undefined

عقیل عباس جعفری نے بتایا کہ جون ایلیا سے اصرار کیا جاتا کہ وہ اپنا مجموعہء کلام شائع کرائیں، تو وہ کہتے، ’’ابھی وقت نہیں آیا۔‘‘ جعفری نے کہا، ’’سب کو حیرانی ہوتی کہ اس سے کیا مراد ہے۔ پھر بالآخر ان کی کتاب ’شاید‘ کے منظر عام پر آنے کے بعد پتہ چلا کہ اُن کو قلق تھا کہ وہ اپنے والد علامہ شفیق حسن ایلیا کا کلام شائع نہ کرا سکے تھے اور وہ ضائع ہو گیا تھا۔‘‘

Published: undefined

عقیل عباس جعفری کہتے ہیں کہ جون صاحب کے چار قریبی دوست تھے جو ممتاز سعید، حسن عابد، راحت سعید اور محمد علی صدیقی تھے۔ ’’جون ان چاروں کو ان کے ناموں کے ابتدائی حروف کو ملا کر انہیں ’محرم‘ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔‘‘

Published: undefined

ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی

جون ایلیا کی شاعری کی انفرادیت ان اشعار سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے:

Published: undefined

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

Published: undefined

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا؟

Published: undefined

بہت نزدیک آتی جا رہی ہو

Published: undefined

بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا؟

Published: undefined

شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی

Published: undefined

لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں

Published: undefined

معروف شاعر سحر انصاری اور جون ایلیا کی رفاقت کم و بیش چالیس سال پر محیط ہے۔ سحر انصاری نے ڈوئچے ویلے اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا، ’’جب جون ایلیا سن انیس سو ستاون میں امروہے سے پاکستان آئے، تو اُن کے بڑے بھائی رئیس امروہوی نے اُنہیں مجھ سے متعارف کرایا۔ اور یوں ہماری رفاقتوں کا آغاز ہوا۔‘‘

Published: undefined

سحر انصاری کے مطابق انہوں نے جون کی گھریلو اور شاعرانہ زندگی کو بڑے قریب سے دیکھا۔ سحر انصاری نے مزید کہا، ’’جون بنیادی طور پر رومانوی مزاج رکھتے تھے اور ساتھ ہی معاشرے کی ناہمواری اور انسانی حقوق کی پامالی پر بھی بہت دکھی رہتے تھے۔‘‘ سحر انصاری کے مطابق جون کی زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا لمحہ اُن کی زاہدہ حنا سے شادی کا لمحہ تھا، جو بہت دیر تک برقرار نہیں رہ سکی۔ اسی طرح جون اپنے رفقاء کو سب سے زیادہ دکھی بھی اس وقت لگے جب اُن کی زاہدہ حنا سے شادی ختم ہوئی۔

Published: undefined

جون نے ایک بار کہا تھا:

Published: undefined

مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں

Published: undefined

یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا؟

Published: undefined

آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جون ایلیا کے چاہنے والے اور اُن کے اشعار پر سر دھننے والے اُن کے ادبی خاندان میں شامل ہو چکے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined