
تصویر بشکریہ آئی اے این ایس
60 سالہ طارق رحمنٰ سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کے صاحبزادے ہیں۔ جب طارق رحمان 17 سال قبل 2008 میں بنگلہ دیش سے لندن چلے گئے تو ان پر کرپشن، رشوت ستانی اور منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طارق رحمان نے بنگلہ دیش سے فرار ہونے کے لیے فوج کی مدد لی تھی۔خبروں میں ہے کہ انہوں نے اس وقت کی حکومت کو ایک حلف نامہ جمع کرایا، جس میں اس بات کی ضمانت دی گئی کہ وہ کبھی بنگلہ دیشی سیاست میں واپس نہیں آئیں گے۔ طارق رحمنٰ نے کبھی سیاست میں نہ آنے کی اپنی قسم توڑ دی ہے اور اب وہ نہ صرف 17 سال بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ لندن سے بنگلہ دیش واپس آئے ہیں بلکہ اب انہیں وزارت عظمیٰ کے لیے سب سے زیادہ دعویدار سمجھا جاتا ہے۔
Published: undefined
طارق رحمٰن نے بنگلہ دیش کی مٹی کو چھوا اور اس کے سامنے جھک گئے، اور اپنے ملک کی مٹی کو اپنی مٹھی میں لے کر کر اپنے حامیوں کا جوش بھی بڑھایا۔ شیخ حسینہ بنگلہ دیش میں نہیں ہیں اور طارق رحمنٰ 17 سال بعد لندن سے بنگلہ دیش واپس آئے ہیں۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ محمد یونس کی عبوری حکومت نے طارق رحمٰن کے خلاف کئی مقدمات واپس لے لیے اور انھیں ایک نئی سیاسی پٹی دے دی۔
Published: undefined
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی سیاست پر اب تک دو خاندانوں کا غلبہ رہا ہے: شیخ حسینہ کا خاندان اور خالدہ ضیاء کا خاندان۔ جب شیخ مجیب الرحمنٰ نے 26 مارچ 1971 کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا تو یہ اعلان ضیاء الرحمنٰ ہی نے کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ضیاء ازم ابھی بنگلہ دیشی سیاست میں داخل نہیں ہوا تھا۔ اس کی پہلی جھلک 1975 کے بعد نظر آئی، جب کچھ فوجی افسران نے شیخ مجیب الرحمنٰ اور ان کے خاندان کو قتل کر دیا۔ شیخ حسینہ اس وقت یورپ میں تھیں، اس لیے وہ بچ گئیں، لیکن یہ بنگلہ دیش کی سیاست میں ایک اہم موڑ تھا۔ ضیاء الرحمنٰ بنگلہ دیش میں اقتدار کا مرکز بنے اور بعد میں فوج سے علیحدگی کے بعد بی این پی تشکیل دی۔ 1991 میں ضیاء الرحمنٰ کی اہلیہ خالدہ ضیا پہلی بار بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بنیں اور کہا جاتا ہے کہ اس حکومت میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے رہنما خالدہ ضیا کے بیٹے طارق رحمنٰ تھے۔
Published: undefined
خالدہ ضیاء کے بعد انہیں بنگلہ دیش میں اقتدار سنبھالنا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ طارق رحمنٰ نے تین دہائیوں تک بنگلہ دیش کا وزیراعظم بننے کا خواب دیکھا اور اب جب وہ بنگلہ دیش واپس آئے ہیں تو انہیں صرف وزیراعظم کی کرسی نظر آتی ہے۔
Published: undefined
2001 اور 2006 کے درمیان، جب خالدہ ضیاء بنگلہ دیش کی وزیر اعظم تھیں، طارق رحمنٰ کو ان کی حکومت میں اصل طاقت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اس حکومت کے تحت ہی طارق رحمنٰ نے بنیاد پرست قوتوں اور دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھایا۔ جماعت اسلامی جس نے 1971 کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا، طارق رحمنٰ کی بھرپور حمایت حاصل کی۔ خالدہ ضیاء کی حکومت میں طارق رحمنٰ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے جماعت اسلامی کی ہندو مخالف سرگرمیوں کو نظر انداز کیا گیا اور بنگلہ دیش میں اقلیتی ہندوؤں کو بی این پی کے دور حکومت میں شدید ترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔
Published: undefined
مزید برآں، جب اگست 2024 میں شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو 11 اگست کو میڈیا رپورٹس منظر عام پر آئیں کہ طارق رحمنٰ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اہلکاروں سے ملاقات کر رہے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے لندن سے مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کا سفر بھی کیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ طارق رحمنٰ ان دنوں اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ وہ دہلی اور راولپنڈی پر بنگلہ دیش کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن صرف اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ہندوستان کے لیے موزوں ثابت ہوں گے۔ یہاں اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ محمد یونس اور طارق رحمٰن کے درمیان ہندوستان کے لیے کون زیادہ خطرناک ہے اور ہندوستان بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعلقات میں کشیدگی کو کیسے کم کر سکتا ہے۔
Published: undefined
طارق رحمنٰ کے لیے اقتدار میں واپسی وطن واپسی کی طرح آسان نہیں ہوگی۔ بنگلہ دیش کی صورت حال اس وقت اتنی سنگین ہے کہاس میں کمی کے آثار نظر نہیں آتے۔ ایک روز قبل بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں نامعلوم افراد نے پٹرول بم حملہ کیا تھا جس میں ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined