کے پی شرما اولی / تصویر سوشل میڈیا
نیپال کے سابق وزیرِاعظم اور نیپال کمیونسٹ پارٹی (یو ایم ایل) کے صدر کے پی شرما اولی نے استعفیٰ کے بعد پہلی بار پبلک پلیٹ فارم پر واپسی کی ہے۔ ہفتہ (27 ستمبر) کے روز اولی نے بھکت پور میں پارٹی کے طلبا ونگ ’راشٹریہ یوتھ یونین‘ کے پروگرام میں شرکت کی۔ اس قدم کو ان کی سیاسی سرگرمیوں کی بحالی اور بالخصوص نوجوانوں سے دوبارہ جڑنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عوامی غصہ اور خونریزی کے بعد اولی کو کرسی چھوڑنی پڑی تھی اور ان کی جگہ سابق چیف جسٹس سوشیلا کارکی کو عبوری وزیرِاعظم بنایا گیا تھا۔ اب اولی نے عبوری حکومت کے خلاف اپنی ناراضگی بھی ظاہر کی ہے اور اسے غیر آئینی قرار دیا ہے۔
Published: undefined
کے پی شرما اولی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’9 ستمبر کو میں نے تقریباً صبح 11 سے 11:30 بجے کے درمیان استعفیٰ دے دیا۔ اس سے قبل یعنی 8 ستمبر کو جو واقعہ پیش آیا تھا، وہ ناگوار تھا اور میری کوشش تھی کہ یہ مزید نہ بڑھے۔ لیکن جب مجھے لگا کہ اب میرے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا تو میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اس (استعفیٰ) کے بعد آگ زنی، توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کے واقعات شروع ہو گئے۔ موجودہ حکومت کو جین-زی حکومت کہا جاتا ہے۔ یہ نہ تو آئین کی دفعات کے مطابق بنی ہے اور نہ ہی عوام کے ووٹ سے۔ یہ تو توڑ پھوڑ اور آگ زنی کے ذریعہ وجود میں آئی غیر آئینی حکومت ہے۔‘‘
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ 8 ستمبر کو شروع ہونے والی جین-زی تحریک اور اس کے اگلے دن 9 ستمبر کو استعفیٰ کے بعد سے اولی عوام کے سامنے نہیں آئے تھے۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی دنوں میں وہ نیپالی فوج کی سیکورٹی میں رہے اور پھر ایک عارضی رہائش گاہ میں منتقل ہو گئے۔ پارٹی کے ڈپٹی جنرل سکریٹری پردیپ گیوالی نے حال ہی میں تصدیق کی تھی کہ اولی سکریٹریٹ کی میٹنگ میں شامل ہوں گے۔ اب اسی تعلق سے عوامی تقریب میں ان کی شرکت دیکھنے کو ملی ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ اولی حکومت والی پارلیمنٹ تحلیل ہو چکی ہے اور مارچ 2026 میں عام انتخابات تجویز کیے گئے ہیں۔ عبوری حکومت نے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں، لیکن سڑکوں پر مظاہرے اب تک نہیں رکے ہیں۔ کٹھمنڈو سمیت بڑے شہروں میں نوجوان مسلسل سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں اولی کی یہ عوامی واپسی صرف پارٹی کو متحد کرنے کی نہیں بلکہ اپنی سیاسی اہمیت کو بچانے کی بھی کوشش سمجھی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام، بالخصوص جین-زی، کیا انہیں دوبارہ قبول کرے گی یا یہ تحریک نیپال کی سیاست کا ایک مستقل موڑ بن جائے گی؟
Published: undefined