دیگر ممالک

سائنسدانوں نے کورونا سے بڑی آفت کو لے کر کیا الرٹ، ابھی سے سنبھل جانے کی تنبیہ

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں اگلی وبا جو آئے گی وہ گلیشیرس کے پگھلنے کی وجہ سے آئے گی۔ گلیشیرس کے نیچے کئی قدیم بیکٹیریا اور وائرس دبے ہوئے ہیں جو باہر آئے تو زمین پر تباہی طے ہے۔

گلیشیرس، تصویر آئی اے این ایس
گلیشیرس، تصویر آئی اے این ایس 

کورونا وائرس کی تباہی سے سبھی واقف ہیں۔ اس وائرس نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ کروڑوں افراد بیمار ہوئے جن میں سے کئی تو اب کووڈ-19 کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ کورونا وائرس کے لگاتار نئے ویریئنٹس اب بھی سامنے آ رہے ہیں اور سردی کے موسم میں ایک بار پھر کورونا انفیکشن میں اضافہ کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس درمیان سائنسدانوں نے کورونا سے بھی بڑی آفت کو لے کر تنبیہ جاری کر دی ہے۔ یہ آفت بھی کسی وائرس یا بیکٹیریا کی وجہ سے پھیلے گی، لیکن بنیادی طور پر وجہ ہوگی پگھلتے ہوئے گلیشیر۔

Published: undefined

دراصل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں اگلی وبا جو آئے گی وہ گلیشیرس کے پگھلنے کی وجہ سے آئے گی۔ گلیشیرس کے نیچے کئی قدیم بیکٹیریا اور وائرس دبے ہوئے ہیں جو باہر آئے تو زمین پر تباہی طے ہے۔ ان سے سمندری مخلوقات بری طرح متاثر ہوں گے، پرندے بھی زد میں آئیں گے اور پھر دیگر جانداروں پر ان کا اثر پڑے گا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آخر میں انسان بھی گلیشیرس کے نیچے دبے قدیم وائرس اور بیکٹیریا سے متاثر ہوں گے اور بڑی تعداد میں ہلاکتیں سامنے آ سکتی ہیں۔

Published: undefined

بڑھتے عالمی درجہ حرارت اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیر پگھلتے جا رہے ہیں۔ ان گلیشرس کے نیچے کروڑوں سالوں سے دفن بیکٹیریا اور وائرس اپنی نسل بڑھا رہے ہیں۔ ایک نئی تحقیق میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ آرکٹک کی گلیشیل جھیلیں خطرناک وبا پھیلانے لائق بیکٹیریا اور وائرس کی نشو و نما کا مرکز ہے۔ یہاں سے جو وائرس نکلیں گے ان سے ایبولا، انفلوئنزا سے بھی خطرناک وبائیں پھیلیں گی۔

Published: undefined

ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں جب سائنسدانوں نے آرکٹک سرکل کے شمال میں موجود جھیل ہیجین کا مطالعہ کیا تھا۔ انھوں نے وہاں کی مٹی اور سیڈیمنٹس کی جانچ کی۔ وہاں سے ڈی این اے اور آر این اے حاصل کر ان کی سیکوئنسنگ کی گئی تاکہ وائرس یا بیکٹیریا کے بارے میں پتہ چل سکے۔ ایک کمپیوٹر ایلگوردم کے ذریعہ یہ پتہ لگانے کی کوشش کی گئی کہ کون سے وائرس جانوروں کے ہیں اور کون سے پودوں کے، یا پھر کون سے اس علاقے میں موجود فنگس میں ہیں۔ اس سے پتہ چلا کہ یہاں سے وائرس لیک ہونے یعنی پھیلنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ یہ سمندری مخلوقات سے زمینی مخلوقات اور اس کے بعد انسانوں تک پہنچ سکتے ہیں۔

Published: undefined

ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گلیشیر کے پگھلتے ہی مذکورہ بالا وائرسز کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ان سب کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے مختلف نسلوں کے جانوروں و دیگر مخلوقات میں وائرل ویکٹر بدل رہے ہیں۔ اونچائی والے آرکٹک علاقے نئی وباؤں کا قلعہ بن سکتے ہیں۔ سائنسدانوں نے وائرس اور اس کے میزبان کے وجود میں آنے اور ڈیولپمنٹ سے متعلق تحقیق کی جس سے پتہ چلا کہ وائرسز سے وبا پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ اگر وائرس کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی طرح کے میزبان (ہوسٹ) میں یہ افزائش کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی جانوروں میں، انسانوں میں یا پھر درختوں میں۔ یا پھر ایک دوسرے میں منتقل بھی ہو سکتے ہیں۔

Published: undefined

سائنسدانوں کو سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ جس طرح سے دنیا بھر میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، جتنی تیزی سے گلیشیر پگھل رہے ہیں، اس سے ایسے قدیم وائرس اور بیکٹیریا سے پھیلنے والی وبا کا خطرہ بھی بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جیسے ہی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے آرکٹک کا مائیکروبایوسفیئر بدلے گا، یہ سبھی بیکٹیریا اور وائرس باہر نکل کر اپنے لیے نئے میزبان تلاش کریں گے۔ نئے میزبان یعنی وہ مخلوق جن پر یہ زندہ رہ سکیں، اور اپنی نسلوں کو بڑھا سکیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کہ کورونا وائرس انسانوں کے جسم میں کر رہا ہے۔ نسلوں کو بڑھانے کے لیے یہ نئے نئے ویریئنٹس کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined