دیگر ممالک

ٹیرف کے باعث امریکہ میں دیوالیہ ہونے والی کمپنیوں کی تعداد 15 سال کی بلند ترین سطح پر، رپورٹ میں انکشاف

’دی واشنگٹن پوسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2025 میں امریکہ میں کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کے معاملات میں کافی اضافہ ہوا ہے، جو عظیم کساد بازاری کے فوراً بعد کی سطح کے برابر نظر آئی۔

<div class="paragraphs"><p>ٹیرف / آئی اے این ایس</p></div>

ٹیرف / آئی اے این ایس

 

ڈونالڈ ٹرمپ بھلے ہی ٹیرف کو درست ثابت کرنے کے لیے تمام طرح کے دعوے کر رہے ہوں اور اسے امریکہ میں ریونیو میں اضافہ کرنے والا بتاتے ہوں، لیکن تصویر اس سے بالکل مختلف نظر آ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کے معاملات رواں سال 2025 میں 15 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ کمپنیاں اس کی بڑی وجہ ٹرمپ ٹیرف کو بتا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مہنگائی اس صورتحال کو مزید خراب کرنے کا کام کیا ہے۔

Published: undefined


’دی واشنگٹن پوسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2025 میں امریکہ میں کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کے معاملات میں کافی اضافہ ہوا ہے، جو عظیم کساد بازاری کے فوراً بعد کی سطح کے برابر نظر آئی۔ ایس اینڈ پی گلوبل مارکیٹ انٹیلی جنس کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو جنوری سے نومبر کے درمیان 717 کمپنیوں نے چیپٹر 7 یا چیپٹر 11 کے تحت دیوالیہ پن کے لیے درخواست دی ہے۔ یہ 2024 کے ان 11 ماہ کے مقابلہ میں تقریباً 14 فیصد زیادہ ہے، جبکہ 2010 کے بعد سب سے زیادہ اعداد و شمار ہیں۔ واضح رہے کہ چیپٹر 11 کو تنظیم نو بھی کہتے ہیں، جس میں کمپنی عدالت کے زیر نگرانی عمل کے تحت اپنے قرضوں کی ازسر نو ترتیب کرتی ہے اور اپنا کام جاری رکھتی ہے۔ جبکہ چیپٹر 7 کے تحت کمپنی بند ہو جاتی ہے اور اس کے اثاثے فروخت کر دیے جاتے ہیں۔

Published: undefined

رپورٹ کے مطابق امریکہ کے وہ کاروبار جو براہ راست درآمدات پر زیادہ انحصار کرتے تھے، انہیں دہائیوں میں سب سے زیادہ ٹیرف کا سامنا کرنا پڑا۔ دیوالیہ پن کی درخواست داخل کرنے میں سب سے زیادہ اضافہ انڈسٹریل سیکٹر میں دیکھنے کو ملا، جس میں تعمیرات، مینوفیکچرنگ اور نقل و حمل جیسی کمپنیاں شامل ہیں۔ ماہرین معاشیات امریکی معیشت میں ایک تضاد دیکھتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کئی کاروبار ٹیرف اور دیگر اخراجات کے دباؤ میں جدوجہد کرنے پر مجبور ہیں۔ دیوالیہ پن کی درخواست دینے والی زیادہ تر کمپنیوں نے اپنے مالی چیلنجوں کے لیے مہنگائی اور شرح سود کو ذمہ دار عوامل میں شمار کیا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ کی تجارتی پالیسیوں کو بھی سپلائی چین میں رکاوٹ ڈالنے والا بتاتے ہوئے کہا کہ اس نے لاگت کو بڑھایا ہے۔

Published: undefined

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مسلسل بدلتی ہوئی ٹیرف پالیسیوں کے باعث تمام شعبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ٹرمپ طویل عرصے سے یہ دعویٰ کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اس سے امریکی مینوفیکچرنگ سیکٹر کو دوبارہ زندہ کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ وفاقی اعداد و شمار کو دیکھیں تو نومبر میں ختم ہونے والی ایک سال کی مدت میں مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 70000 سے زائد نوکریاں ختم ہو گئیں۔ ایسے میں ٹرمپ کے تمام دعوے کھوکھلے نظر آتے ہیں۔

Published: undefined

مجموعی طور پر دیوالیہ پن کے معاملات میں 2025 کی پہلی ششماہی کے دوران زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس میں 1 ارب ڈالر (8980 کروڑ روپے سے زیادہ) کے اثاثوں والی کمپنیوں کی جانب سے دیوالیہ پن کے لیے درخواست دینا شامل ہے۔ اکنامک ایڈوائزر فرم ’کارنرسٹون ریسرچ‘ کے مطابق جنوری سے جون تک دیوالیہ پن کے ایسے 17 معاملے سامنے آئے، جو 2020 میں کووڈ-19 کی وبا کے بعد سے کسی بھی ششماہی میں سب سے زیادہ رہے۔ ’ایٹ ہوم‘ اور ’فار ایور 21‘ جیسے ریٹیل سیلرز سمیت صارفین پر مبنی بزنس سیکٹر سے دیوالیہ پن کی کئی درخواستیں موصول ہوئیں۔ کونرسٹون کے سربراہ میٹ اوسبورن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’ان بڑی کمپنیوں نے صارفین کی مانگ پر اثر ڈالنے والے اور سرمایہ اکٹھا کرنے کے عمل کو مشکل بنانے والے عوامل میں مہنگائی کی شرح اور شرح سود کا حوالہ دیا ہے۔

Published: undefined

قابل ذکر ہے کہ ماہرین معاشیات اور کاروباری ماہرین کا کہنا ہے کہ تجارتی جنگوں نے درآمدات پر منحصر کاروباروں پر شدید دباؤ ڈالا ہے، جو صارفین کو ناراض کرنے اور ان کے دور جانے کے خوف سے اپنی اشیاء کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ ییل یونیورسٹی کے اسکول آف مینجمنٹ کے پروفیسر جیفری سونن فیلڈ کا کہنا ہے کہ دیوالیہ پن کی درخواست دینے والی یہ امریکی کمپنیاں عام امریکی شہریوں کے سامنے موجود مہنگائی کے بحران سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ ٹیرف کی لاگت کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن ان کی بھی ایک حد ہے۔ قیمتوں پر کنٹرول رکھنے والی کمپنیاں وقت کے ساتھ لاگت کا بوجھ گاہکوں پر ڈال دیں گی، جبکہ باقی کمپنیاں بند ہو جائیں گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined