ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای / آئی اے این ایس
ایران نے اقوام متحدہ کی پرانی جوہری پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی کوششوں کے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے فرانس، جرمنی اور برطانیہ سے اپنے سفیروں کو فوری طور پر واپس بلا لیا ہے۔ اس قدم سے تہران میں سفارتی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، جہاں ایران کا جوہری پروگرام طویل عرصے سے عالمی تنازعہ کا مرکز رہا ہے۔
Published: undefined
واضح ہو کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایران پر بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت نہ کرنے کے سبب ہٹائی گئی پابندیاں پھر سے عائد کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ اطلاع ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ نے دی ہے۔ اس پابندی والے اقدام کے تحت بیرون ممالک میں موجود ایرانی جائیداد منجمد ہو جائیں گی، تہران کے ساتھ ہتھیاروں کے سودے روک دیے جائیں گے اور ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام جاری رہنے پر اسے سزا دی جائے گی۔
Published: undefined
ایرانی وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر نے ہفتہ (27 ستمبر) کو اعلان کیا کہ یہ سفیر مشاورت کے لیے تہران لوٹ رہے ہیں، لیکن سفارتی ذرائع کے مطابق یہ قدم یورپی ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کو بھیجے گئے خط کا براہ راست نتیجہ ہے۔ گزشتہ ماہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ (مشترکہ طور پر ای-3 کے طور پر جانا جاتا ہے) نے یو این ایس سی کو خط لکھ کر الزام عائد کیا تھا کہ ایران نے 2015 کے جوہری معاہدے (جے سی پی او اے) کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی ہے۔ ان ممالک نے پرانی پابندیوں کو ’اسنیپ بیک‘ عمل کے تحت بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جو ایران کی جوہری سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کر سکتی ہیں۔
Published: undefined
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایک بیان میں کہا کہ ’’یہ یورپی ممالک جوہری معاہدے کو توڑنے کی سازش کر رہے ہیں۔ ہم اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لیے ہر ضروری قدم اٹھائیں گے۔‘‘ تہران نے ان پابندیوں کو غیر قانونی اور یکطرفہ قرار دیتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ اس سے علاقائی استحکام پر برا اثر پڑے گا۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کےلیے ہے، لیکن مغربی ممالک یورینیم کی افزودگی کی مقدار کو لے کر خوف زدہ ہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز