دیگر ممالک

کیا چمگادڑ بنا کانگو میں 53 لوگوں کی موت کا سبب؟ عجیب بیماری سے ماہرین صحت فکر مند

کانگو میں چمگادڑ کھانے پر روک لگائی جا رہی ہے کیونکہ پُراسرار بیماری پھیلتی جا رہی ہے، لیکن دنیا میں ایسے بھی کئی ممالک ہیں جہاں چمگادڑ خوب کھایا جاتا ہے اور کانگو جیسی بیماری ان ممالک میں نہیں پھیلی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

کانگو اس وقت ایک پُراسرار بیماری کی زد میں ہے۔ اس بیماری نے تقریباً 53 لوگوں کی جان لے لی ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ ماہرین صحت فکر مند ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اموات چمگادڑ کھانے کی وجہ سے ہوئی ہیں، حالانکہ مصدقہ طور پر کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ کانگو کے بکورو اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر سرج نگالیباٹو کا کہنا ہے کہ اس بیماری کی شروعاتی علامتوں میں بخار، الٹی اور جسم کے اندر خون کا رساؤ شامل ہے۔

Published: undefined

سرج کا کہنا ہے کہ بیشتر معاملوں میں علامتیں ظاہر ہونے اور موت کے درمیان کا وقفہ 48 گھنٹے کا رہا ہے اور یہ بات فکر انگیز ہے۔ اس بیماری کی علامتیں ایبولا، ڈینگو، ماربرگ اور پیلیا جیسے مہلک وائرس سے جڑے ہوتی ہیں، لیکن محققین نے اب تک لیے گئے ایک درجن سے زائد نمونوں کی جانچ کی بنیاد پر انھیں خارج کر دیا ہے۔

Published: undefined

ملک میں پیدا مشکل حالات کو دیکھتے ہوئے کانگو میں چمگادڑ کو کھانے پر روک لگائی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ پُراسرار بیماری کا تیزی کے ساتھ پھیلنا ہے۔ حالانکہ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جہاں چمگادڑ خوب کھائے جاتے ہیں، پھر بھی کانگو جیسی بیماری ان ممالک میں نہیں پھیلی ہے۔ افریقہ کے کچھ حصوں میں بھی چمگادڑ کا گوشت خوب کھایا جاتا ہے، مثلاً گنی اور مالی وغیرہ۔ اس کے علاوہ کچھ ایشیائی ممالک میں بھی چمگادڑ کا گوشت استعمال ہوتا ہے۔ ان ممالک مین چین، انڈونیشیا اور فلپائن شامل ہیں جہاں مختلف پکوانوں میں چمگادڑ کا گوشت استعمال ہوتا ہے۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں چمگادڑ کے گوشت کا استعمال ممنوع ہے اور برا تصور کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں ہندوستان بھی شامل ہے۔

Published: undefined

کانگو میں پھیلی بیماری کے بعد دنیا بھر میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا چمگادڑ کا گوشت کھانا صحت کے لیے مناسب ہے؟ چمگادڑ کا گوشت کس حد تک مختلف وائرس اور انفیکشن کی وجہ بن سکتا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ چمگادڑوں کے گوشت کو ٹھیک سے پکا کر ہی کھانا چاہیے، لیکن پھر بھی یہ جوکھم بھرا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined