دیگر ممالک

افغان شہریوں کو ماں کا نام مل گیا! نسوانی حقوق علمبرداروں کی کوششوں کا ثمرہ

اب اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا جہاں بل کو قدامت پسند سیاستدانوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا بھی رہے گا۔ امید ہے کہ پارلیمانی منظوری کے بعد ملک کے صدر بل پر دستخط کردیں گے۔

تصویر Getty Images
تصویر Getty Images 

کابل: اندیشوں سے امکانات کی طرف مرحلہ وار لوٹتی دنیا میں کل ایک اور نئی تبدیلی اس وقت آئی جب انتہائی قدامت پسند ملک تصور کیے جانے والے ملک افغانستان کی حکومت نے بچوں کی پیدائش کے دستاویز پر ماں کا نام شامل کرنے کی منظوری دے دی۔ افغانستان میں ابت ک بچوں کی پیدائش کے کاغذات پر صرف باپ کا نام لکھا جاتا تھا۔ شادیوں کے دعوت ناموں اور یہاں تک کہ ان کی قبروں کے کتبوں پر بھی خواتین کا نام لکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور کارکنان کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔

Published: undefined

کابینہ کمیٹی کی اس اجازت کے بعد اب اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا جہاں بل کو قدامت پسند سیاستدانوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا بھی رہے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ پارلیمانی منظوری کے بعد ملک کے صدر بل پر دستخط کردیں گے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ مذکورہ بل کو رواں ماہ 21 ستمبر تک جاری رہنے والے پارلیمنٹ کے اجلاس سے منظور کروائے۔

Published: undefined

افغانستان میں کچھ عرصے سے ’میرا نام کہاں ہے‘ کے ہیش ٹیگ سے ایک مہم شروع کی گئی تھی اور اسی مہم کے دوران افغانستان کی خواتین سے امور سے متعلق کمیٹی کی چیئرمین و رکن پارلیمنٹ ناہید فرید نے بچوں کی پیدائش سے متعلق قوانین میں ترمیم کا مجوزہ بل پیش کیا تھا۔ اس میں برتھ سرٹیفکیٹ میں ماں کا نام بھی شامل کرنے کی تجویز رکھی گئی تھی۔

Published: undefined

مذکورہ بل پر افغان کابینہ نے یکم ستمبر کو اجلاس منعقد کیا۔ نائب صدر محمد سرور دانش کی سربراہی میں قانونی معاملات کی کمیٹی کے اجلاس میں ناہید فرید کے تجویز کردہ قانون کا جائزہ لے کر اس کی منظوری دے دی گئی۔ کابینہ کمیٹی نے آبادی کے اندراج کے قوانین میں بھی ترمیم کی منظوری دی اور بچوں کی پیدائش کی اسناد میں ماں کے نام کو شامل کرنے کی اجازت دی۔

Published: undefined

ماضی میں طالبان کے دور میں اہم عہدوں پر تعینات رہنے والوں نے تنقید کرتے ہوئے مذکورہ قانون کو جہاں یورپ اور امریکا کا قانون گردانا ہے وہیں حکومتی فیصلے پر خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور رہنماؤں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ فیصلے سے خواتین کو صدیوں بعد اپنی شناخت ملے گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined