ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں قریب دو سو امریکی فوجی متعین رہیں گے اور بقیہ کو وہاں سے واپس بلا لیا جائے گا۔ اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کی خاتون ترجمان سارہ ساندرز کی جانب سے ایک مختصر بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق، ’’قریب 200 فوجیوں پر مشتمل ایک چھوٹا امن مشن شام میں کچھ وقت کے لیے تعینات رہے گا۔‘‘
Published: undefined
یہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان ہونے والی ایک ٹیلی فونک بات چیت کے بعد سامنے آیا۔ سارہ ساندرز کے مطابق دونوں صدور نے ایک ممکنہ سیف زون قائم کرنے کی کوشش جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
Published: undefined
رپبلکن پارٹی کے سینیئر سینیٹر لنڈزی گراہم نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فوجی شام میں استحکام اور توازن کا باعث ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی فوجی یقینی طور پر شام میں ایرانی سرگرمیوں پر بھی نگاہ رکھ سکیں گے۔ گزشتہ برس دسمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں تعینات قریب دو ہزار امریکی فوجیوں کے انخلا کا اچانک اعلان کر کے اتحادیوں کو حیران کر دیا تھا۔
Published: undefined
اس فیصلے پر اپوزیشن کے علاوہ صدر ٹرمپ کی اپنی سیاسی جماعت ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی طرف سے بھی تنقید کی گئی تھی جبکہ اسی باعث وزیر دفاع جِم میٹس نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
Published: undefined
فیصلے کے مخالفین کا کہنا تھا کہ اس طرح اچانک شام سے امریکی افواج کی واپسی کے بعض نا قابل اندازہ نتائج مرتب ہو سکتے ہیں جن میں ترکی کی طرف سے امریکی حمایت یافتہ کُرد فورسز کے خلاف حملے کے علاوہ داعش کے ایک بار پھر قوت پکڑنے سے نتائج شامل ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
امریکا کی طرف سے شام میں اپنے فوجیوں کی ایک محدود تعداد رکھنے کا مقصد یورپی اتحادیوں کو اس بات راضی کرنا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے فوجی شام بھیجیں۔ امریکا کے قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شناہان نے گزشتہ ہفتے جرمن شہر میونخ میں ہونے والی سکیورٹی کانفرنس کے دوران بعض یورپی ممالک کے وزرائے دفاع سے ملاقات کی تھی۔ خیال یہی ہے کہ اس ملاقات کا مقصد ان ممالک کو شام سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہاں اپنے فوجی بھیجنے پر راضی کرنا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: بشکریہ محمد تسلیم
تصویل: کانگریس میڈیا ڈپارٹمنٹ
تصویر: پریس ریلیز