خبریں

کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے، طالبان

امریکا اور طالبان کی امن ڈیل کے بعد افغان عسکریت پسند تنظیم نے کابل حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنا ہے۔ اس مذاکراتی عمل میں رکاوٹ پیدا ہونے کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا 

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ وہ کابل حکومت کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے کیونکہ یہ مختلف دھڑوں پر مشتمل ایک نمائندہ وفد نہیں ہے۔ طالبان کے اس بیان کو امریکا کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کے لیے ایک دہچکا قرار دیا گیا ہے۔ یہ مذاکرات ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں منعقد کیے جائیں گے۔

Published: undefined

طالبان کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُن کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات کے لیے مختلف افغان گروپوں کے نمائندوں پر وفد کی تشکیل ڈیل کا حصہ ہے۔ مذاکراتی عمل میں شرکت سے انکار کا بیان افغان ترجمان نے ہفتہ اٹھائیس مارچ کو جاری کیا۔ کابل حکومت نے اس نئی پیش رفت پر ابھی کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

Published: undefined

کابل حکومت نے جمعہ ستائیس مارچ کو افغان طالبان کے ساتھ وسیع تر امن کے قیام کی بات چیت کے لیے ایک اکیس رکنی ٹیم کا اعلان کیا تھا۔ مذاکراتی ٹیم میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں۔ اس وفد کی تشکیل کی تعریف طالبان کے ساتھ امن ڈیل طے کرنے والے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بھی کی ہے۔ زلمے خلیل زاد نے اس مذاکراتی ٹیم کو جامع قرار دیا ہے۔

Published: undefined

ماہرین اور تجزیہ کاروں نے افغانستان میں جامع امن کے قیام کے لیے کابل حکومت کی نمائندہ ٹیم اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ اسی مذاکراتی عمل کو افغانستان میں امن کے ساتھ ساتھ ایک پائیدار حکومت کی تشکیل کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے۔ اس بات چیت میں تاخیر سے امریکا کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کے کمزور ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

Published: undefined

ابھی تک طالبان نے افغان صدر اشرف غنی کی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت شروع کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ مذاکراتی ٹیم کی تشکیل کے بعد خیال کیا گیا تھا کہ کابل حکومت اور طالبان ایک میز پر بیٹھنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ امریکا اور طالبان کے مابین امن ڈیل انتیس فروری کو خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پائی تھی۔

Published: undefined

ان مذاکرات میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں پیدا سنگین اقتدار کی رسہ کشی ہے۔ مسندِ صدارت پر اشرف غنی کے ساتھ ساتھ عبداللہ عبداللہ بھی دعویٰ رکھتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی اس کشیدہ صورتِ حال میں کمی لانے میں ناکام رہے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined