خبریں

’دو سمندروں کو جوڑنے والا عجوبہ‘: نہر سوئز کے ڈیڑھ سو سال

عالمی سطح پر فن تعمیرات کا عجوبہ کہلانے اور دو سمندروں کو جوڑنے والی نہر سوئز کے افتتاح کو ٹھیک ڈیڑھ سو سال ہو گئے ہیں لیکن مصر کی اپنی اس ریاستی ملکیت سے توقعات آج بھی مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔

’دو سمندروں کو جوڑنے والا عجوبہ‘: نہر سوئز کے ڈیڑھ سو سال
’دو سمندروں کو جوڑنے والا عجوبہ‘: نہر سوئز کے ڈیڑھ سو سال 

بحیرہ روم اور بحیرہ احمر نامی دو سمندروں کو ملانے والے اور انسانوں کے تعمیر کردہ اس آبی راستے کو اکتوبر 1956ء میں اس دور کے مصری صدر جمال عبدالناصر نے ریاستی ملکیت میں لینے کا جو اعلان کیا تھا، اس پر مصر میں تو بہت زیادہ خوشیاں منائی گئی تھیں لیکن یورپ میں اس اقدام پر ناامیدی کا اظہار کیا گیا تھا۔

Published: undefined

یہ آبی راستہ آج بھی مصر کے لیے آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ مصر میں قومیائے جانے سے پہلے اس نہر کی ملکیت زیادہ تر برطانوی فرانسیسی کمپنی سوئز سوسائٹی کے پاس تھی۔ شروع میں برطانیہ اور فرانس نے اس دور کی قاہرہ حکومت کو مذاکرات کے ذریعے اس اقدام سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

Published: undefined

اسرائیل کی مدد سے برطانوی فرانسیسی فوجی قبضہ

Published: undefined

جب یہ مذاکراتی کوششیں ناکام ہو گئیں، تو برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کی مدد سے مصر کے سوئز کینال والے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد معاملہ ایک تنازعے کی صورت میں جب اقوام متحدہ میں پہنچ گیا، تو امریکا اور سابقہ سوویت یونین کے مشترکہ دباؤ کے باعث فرانسیسی، برطانوی اور اسرائیلی دستے اس مصری علاقے سے واپسی پر مجبور ہو گئے تھے۔

Published: undefined

ماہرین کا کہنا ہے کہ نہر سوئز مصر کے لیے شروع سے ہی قومی اہمیت کی ایک علامت ہے اور قاہرہ اسے اپنی ریاستی پیش رفت کا استعارہ بھی سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ صدر جمال عبدالناصر کی طرف سے اس نہر کو قومیا لینے کے فیصلے کا ایک محرک عرب قوم پسندی بھی تھا۔

Published: undefined

صدیوں پرانا خواب

Published: undefined

سوئز کینال کی تعمیر سے قبل بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو جوڑنے والے انسانوں کے تعمیر کردہ کسی آبی راستے کا تصور تو صدیوں پرانا تھا۔ سولہویں صدی میں عثمانی ترکوں نے بھی ایسا سوچا تھا۔ پھر 1798ء میں نیپولین کے دور میں فرانسیسی ماہرین تعمیرات بھی مصر گئے تھے، جہاں انہوں نے اپنے ابتدائی تعمیراتی تخمینے لگا کر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایسا کوئی بھی منصوبہ حقیقت پسندانہ نہیں ہو گا۔ اس کے بعد برطانوی ماہرین کا تجربہ اور اس کا نتیجہ بھی ایسا ہی رہا تھا۔

Published: undefined

اس منصوبے پر عملی پیش رفت فرڈینانڈ دے لَیسیپ نے کی تھی۔ اس نہر کی تعمیر کے لیے شروع میں ہزاروں یورپی کارکن وہاں لائے گئے تھے۔ پھر جب وہ بھی کم پڑ گئے، تو اس دور کے مصری حکمران محمد سعید نے 1861ء میں بالائی مصر سے مزید تقریباﹰ 10 ہزار کارکنوں کو زبردستی بلوایا، جنہوں نے اس منصوبے میں مدد کی۔ اس کے ایک سال بعد اس پروجیکٹ پر کام کرنے کے لیے مزید 18 ہزار کارکن بلانا پڑے تھے۔

Published: undefined

حیران کن اعداد و شمار

Published: undefined

نہر سوئز کی تعمیر کے منصوبے نے اس دور کے مصر کو بھی بہت زیادہ بدل دیا تھا۔ اس نہر کے کنارے آباد ہونے والے شہروں میں سے پورٹ سعید ایک ایسا بڑا تجارتی مرکز بن گیا، جس کا رابطہ باقی ماندہ ساری دنیا کے تجارتی نیٹ ورک سے قائم ہو گیا تھا۔

Published: undefined

شروع میں اس نہر کو 'ہائی وے آف دا برٹش ایمپائر‘ کا نام دیا گیا تھا اور اس کی وجہ سے لندن اور ممبئی کے درمیان سمندری فاصلہ تقریباﹰ 20 ہزار کلومیٹر سے کم ہو کر ساڑھے گیارہ ہزار کلومیٹر رہ گیا تھا۔ اس سے جہاز رانی کی بین الاقوامی صنعت کو بھی بہت توقی ملی تھی۔

Published: undefined

17 نومبر 1869ء کو افتتاح

Published: undefined

1870ء میں اس آبی راستے سے 486 بحری جہاز گزرے تھے، جن میں تقریباﹰ 27 ہزار مسافر سوار تھے۔ 1913ء میں ان بحری جہازوں کی تعداد تقریباﹰ 5100 ہو گئی تھی، جس میں سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد بھی تقریباﹰ دو لاکھ 35 ہزار بنتی تھی۔

Published: undefined

بحری آمد و رفت کی اس ترقی سے اس نہر کے باقاعدہ افتتاح کے وقت اس دور کے مصری حکمران اسماعیل پاشا کی طرف سے 17 نومبر 1869ء کے روز کہی جانے والی یہ بات بھی سچ ثابت ہو گئی تھی، ''میرا ملک اب صرف افریقہ کا حصہ نہیں رہا۔ میں نے اسے یورپ کا حصہ بھی بنا دیا ہے۔‘‘

Published: undefined

سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی

Published: undefined

نہر سوئز کو مزید چوڑا کرنے کے جس منصوبے پر کام 2015ء میں مکمل ہو گیا تھا، اس کے بعد سے اس آبی راستے کی ٹرانسپورٹ کی اہلیت بھی تقریباﹰ دگنی ہو چکی ہے۔ پہلے اگر روزانہ تقریباﹰ صرف 49 بحری جہاز ہی اس نہر سے گزر سکتے تھے، تو آج یہ تعداد 100 ہو گئی ہے۔

Published: undefined

مصر کے لیے یہ نہر مالیاتی حوالے سے کتنی اہمیت کی حامل ہے، اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مالی سال 2018ء اور 2019ء میں قاہرہ کو اس سے ہونے والی آمدنی کا تخمینہ تقریباﹰ چھ بلین ڈالر لگایا گیا تھا۔ لیکن اگر مصر کی نہر سوئز سے وابستہ ریاستی توقعات کو دیکھا جائے تو شمالی افریقہ کی اس ریاست کا خیال یہ ہے کہ وہ آج بھی اس نہر سے اتنا زیادہ فائدہ نہیں اٹھا رہی، جتنا کہ ممکن ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined