خبریں

’سعودی ڈکٹیشن‘ لینے والے ملک کا مشرق وسطیٰ تنازعے میں کردار

پاکستان نے مشرق وسطی میں کشیدگی کو کم کرانے کے لیے سرگرم سفارتی مہم شروع کردی ہے لیکن سفارتی اور بین الاقوامی امور کے ماہرین کے خیال میں یہ مہم کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی۔

’سعودی ڈکٹیشن‘ لینے والے ملک کا مشرق وسطیٰ تنازعے میں کردار
’سعودی ڈکٹیشن‘ لینے والے ملک کا مشرق وسطیٰ تنازعے میں کردار 

واضح رہے کہ اسلام آباد نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ وہ کسی بھی تنازعے یا جنگ کا حصہ نہیں بنے گا اور نہ ہی اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے دے گا بلکہ یہ کہ وہ امن کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔ کل بروز بدھ وزیر اعظم عمران خان نے بھی حکومت کے اس موقف کو دہرایا اور اعلان کیا کہ شاہ محمود قریشی ایران، سعودی عرب اور امریکا کا دورہ کر کے اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کریں گے جب کہ جنرل باجوہ کو متعلقہ ممالک کے فوجی حکام سے رابطہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

Published: undefined

کئی ناقدین کے خیال میں پاکستان مشرق وسطی کے مسئلے پر کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا کیونکہ نہ ملک معاشی طور پر طاقت ور ہے اور نہ ہی کوئی عالمی طاقت ہے۔

Published: undefined

خیال کیا جاتا ہے کہ ایران میں عوامی جذبات بہت زیادہ مشتعل ہیں اور ایرانی انتقام کے جذبے سے بھرے بیٹھے ہیں، ایسے میں وہ صلح صفائی کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے۔ پاکستان کی سابق سفیر برائے ایران فوزیہ نسرین نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میرے خیال میں جتنا بڑا ہجوم سلیمانی کے جنازے میں شرکت کے لیے آیا، اس سے لگتا ہے کہ فی الحال تو ایسی کوئی پاکستانی مہم کامیاب نہیں ہوگی، پاکستان صرف کوشش ہی کر سکتا ہے لیکن ان کوششوں کی کامیابی کے امکانات زیادہ نہیں ہیں۔"

Published: undefined

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور ایران براہ راست بات چیت نہیں کر سکتے جب کہ واشنگٹن اور تہران کی بھی براہ راست بات چیت نہیں ہے، تو ایسے میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ اسلام آباد کی بات چیت تمام ممالک سے ہے۔ لیکن فوزیہ نسرین اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ "میرا نہیں خیال کہ معاملہ ایسا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عراقی وزیر اعظم ایران اور سعودی عرب میں بات چیت کرارہے تھے۔ سلیمانی اورمہندس بھی اس بات چیت کا حصہ تھے اور کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس بات چیت میں پیش رفت ہورہی تھی اور سلیمانی کو ہدف ہی اسی لیے بنایا گیا ہے کہ وہ بات چیت ناکام ہو۔ اسی طرح امریکا اور ایران کے درمیان بات چیت کا زریعہ جاپان تھا۔ تو میرا نہیں خیال کہ پاکستان کی پوزیشن ایک پیغام رساں جیسی ہے۔"

Published: undefined

پاکستان میں یہ خیال عام ہے کہ اسلام آباد مسلم امہ کا ایک بہت بڑا لیڈر ہے اور اس کی وجہ سے کئی ممالک اسلام آباد کی بات کو سنتے ہیں۔ لیکن بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ممالک اپنی پالسیاں قومی مفادات کے تحت بناتے ہیں، جس میں مذہب کوئی بہت بڑا عنصر نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت عائشہ کے مطابق ہم پر سعودی اثر ورسوخ اتنا ہے کہ ہم ان سے کوئی بات نہیں منوا نہیں سکتے۔ "صلح کاری کے لیے کسی ملک کی مضبوط پوزیشن ہونا ضروری ہے لیکن یہاں معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ناقدین تو اب کہہ رہے ہیں کہ پہلے پاکستان امریکا سے ڈکٹیشن لیتا تھا اور اب ریاض یہ ڈکٹیشن دیتا ہے۔ تو ایسی صورت میں سعودی ہماری بات کیوں سنیں گے۔"

Published: undefined

ان کا کہنا تھا کہ صلح کے لیے فریقین کی رضا مندی بھی ضروری ہے۔ "لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ایران پاکستان کی وجہ سے اپنی پالیسیوں سے پیچھے ہٹے گا۔ پہلے بھی ایسی کوششیں ناکام ہوئی ہیں اور اب بھی اس سفارتی سرگرم مہم کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔"

Published: undefined

اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ ابھی تو یہ مہم شروع ہوئی ہے، اس کی کامیابی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined