خبریں

قطر اور ترکی کا سعودی ولی عہد کے خلاف ’اعلان جنگ‘؟

جرمن جریدے ’اشپیگل‘ نے انکشاف کیا ہے کہ ترکی خلیجی ریاست قطر میں اپنی عسکری موجودگی میں اضافہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ قطر میں ترک فوجوں کی بڑی تعداد سعودی عرب کو اشتعال دلا سکتی ہے۔

قطر اور ترکی کا سعودی ولی عہد کے خلاف ’اعلان جنگ‘؟
قطر اور ترکی کا سعودی ولی عہد کے خلاف ’اعلان جنگ‘؟ 

سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک نے قریب دو برس سے قطر کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اس ناکہ بندی کے منصوبہ ساز سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ہیں اور انہوں نے ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے قطر سے جو مطالبات کر رکھے ہیں ان میں سن 2016 میں قطر میں قائم کی گئی ایک عسکری بیس کو بند کیے جانے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

Published: undefined

قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے دیگر مطالبات کے ساتھ اس مطالبے کو بھی مسترد کر دیا تھا۔

Published: undefined

ترک اخبار 'حریت‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سعودی مطالبے کے جواب میں قطری امیر نے اپنے ملک میں ایک نئی ترک فوجی چھاؤنی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئی چھاؤنی کا آغاز رواں موسم خزاں میں کیا جائے گا اور اس کے لیے منعقدہ تقریب میں ترک صد رجب طیب ایردوآن بھی شرکت کریں گے۔

Published: undefined

اس وقت تک قطر میں تین ہزار ترک فوجی موجود ہیں تاہم حریت اخبار سے وابستہ خاتون صحافی ہاندی فرات نے اپنی رپورٹ میں یہ بتانے سے گریز کیا کہ نئی چھاؤنی کے قیام کے بعد مزید کتنے ترک فوجی قطر بھیجے جائیں گے۔ اشپیگل نے قطری ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ترکی اپنے اتحادی خلیجی ملک میں کم از کم پانچ ہزار مزید فوجی تعینات کرے گا۔

Published: undefined

انقرہ اور دوحہ: خطے میں اہم اتحادی

Published: undefined

قطر میں مزید ترک فوجی تعینات کر کے دوحہ اور انقرہ سعودی ولی عہد اور ان کے دیگر اتحادیوں کو کچھ واضح پیغامات پہچانا چاہتے ہیں۔

Published: undefined

صدر ایردوآن چاہتے ہیں کہ وہ یہ واضح کر دیں کہ ترکی کی خراب ہوتی ہوئی معاشی صورت حال کے باوجود وہ مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عسکری موجودگی میں اضافہ خلیج فارس میں کشیدگی میں اضافے کے صورت میں خطے میں ترکی کے معاشی مفادات کے تحفظ کا بھی سبب بن سکتا ہے۔

Published: undefined

قطری امیر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ناکہ بندی ان کی پالیسیوں پر اثر انداز نہیں ہو گی اور وہ نہ تو الجزیرہ چینل بند کریں گے اور نہ ہی صدر ایردوآن سے اپنے تعلقات ختم کریں گے۔

Published: undefined

سعودی ناکہ بندی کے بعد ترکی قطر کا اہم پارٹنر بن کر سامنے آیا اور دونوں ممالک نے باہمی معاشی تعلقات میں بھی نمایاں اضافہ کر رکھا ہے۔ دونوں ممالک نے صومالیہ اور لیبیا کے بحرانوں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر عملی اقدامات کیے۔

Published: undefined

اردن اور مراکش سعودی عرب سے دور ہوتے ہوئے

Published: undefined

قطر میں ترک فوجیوں کی تعداد میں اضافہ محمد بن سلمان کو مزید اشتعال دلانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ سعودی ولی عہد ترکی اور قطر پر اخوان المسلمین جیسی مذہبی تنظیموں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ دونوں ممالک مشرق وسطیٰ میں کئی عرب بادشاہتوں کو ختم کر کے وہاں 'اسلامی نظام‘ لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی اور اماراتی شہزادے اس کے برعکس 'جابر حکمرانوں‘ کو مزید مضبوط بنا کر 'خطے میں استحکام‘ لانے کے لیے کوشاں ہیں جس کا ایک مظہر سوڈان کی صورت حال میں دیکھا گیا۔

Published: undefined

خلیجی اتحادیوں کے علاوہ دیگر عرب ممالک بھی کئی برسوں سے تمیم اور ایردوآن کی خارجہ پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ابتدا میں قریب سبھی ممالک نے سعودی عرب اور اس کے خلجی اتحادیوں کا ساتھ بھی دیا۔ لیکن قطر کے خلاف محمد بن سلمان کے سخت تر اقدامات سے بھی عرب حکمران ناخوش ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران مراکش اور اردن کے بادشاہوں نے ریاض سے فاصلہ اختیار کر لیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined