خبریں

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی: ماسکو اور برلن قریب آ سکتے ہیں

امریکا اور ایران جیسے ہی جنگ کے دہانے پر دکھائی دیے، ویسے ہی جرمنی اور روس کے رہنماؤں نے ماسکو میں ملاقات کا منصوبہ بنایا۔

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی: ماسکو اور برلن قریب آ سکتے ہیں
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی: ماسکو اور برلن قریب آ سکتے ہیں 

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے آج ہفتے کے دن ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کی، جس میں لیبیا میں قیام امن کے علاوہ کئی اہم عالمی اور علاقائی موضوعات پر گفتگو کی گئی۔ میرکل روس کا یہ دورہ انتہائی ڈرامائی وقت پر کر رہی ہیں۔ جرمن چانسلر کی میزبانی کرنے والے روسی صدر پوٹن میرکل سے مذاکرات سے پہلے اسی ہفتے مشرق وسطیٰ کے دورے سے لوٹے ہیں۔

Published: undefined

گزشتہ منگل کو پوٹن ایک غیر معمولی دورے پر شامی دارالحکومت دمشق پہنچے تھے۔ 2015 ء میں شامی صدر بشارالاسد کا ساتھ دیتے ہوئے اُن کے حلیف کے طور پر روس نے شام کی خانہ جنگی میں پہلی بار براہ راست مداخلت کی تھی۔ تب سے اب تک روسی صدر کا شام کا یہ دوسرا دورہ تھا۔ ایران اور اُس کی نمائندہ فورسز بشار الاسد کی افواج کو نمایاں مدد فراہم کرتی رہی ہیں۔

Published: undefined

غیر معمولی اہمیت کے حامل واقعات

Published: undefined

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا ماسکو کا مجوزہ ورکنگ دورہ اس لیے نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے کہ رواں ہفتے ہی ایران اور امریکا نے عراقی سرزمین پر ایک دوسرے کے اہداف کو نشانہ بنايا۔ ایران نے ایک بین الاقوامی جوہری معاہدہ چھوڑ دیا اور ترکی نے لیبیا میں فوج بھیج دی۔ یقینی طور پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے لیے ہفتہ 11 جنوری کے اجلاس کے لیے میرکل کو کریملن میں مدعو کرنے کی کافی وجوہات موجود تھیں۔

Published: undefined

دونوں رہنماؤں کے ترجمان نے بتایا کہ ایران اور امریکا کے مابین تنازعہ اجلاس کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوگا اور میرکل اور پوٹن لیبیا ، شام اور یوکرائن کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ جرمنی اور روس کے روایتی طور پر گہرے معاشی تعلقات ہیں اور تمام نیٹو اور یورپی رہنماؤں میں، میرکل کو ماسکو میں سب سے زیادہ گرم جوشی سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

Published: undefined

یوکرائن کے سبب دوری ٹرمپ کی وجہ سے قربت

Published: undefined

مشرق وسطٰی میں بدلتا ہوا توازن برلن حکومت کو تنازعات کے حل کے لیے ماسکو پر بھروسہ کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ سن 2014 میں یوکرائن کے بحران میں روس کے کردار اور جزیرہ نما کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق نے جرمنی اور روس کے مابین شدید تفرقہ پیدا کیا جو ہنوز ٹھیک نہیں ہوپایا ہے۔ ماسکو کارنیگی سینٹر سے منسلک ایک سیاسی تجزیہ کارکا الکسزانڈر بوؤنوف کا کہنا ہے، ''یوکرائن اب برلن اور ماسکو کے باہمی تعلقات میں پہلے جتنا زہریلا نہیں رہا ہے۔‘‘ انہوں نے یوکرائن کے نئے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے دور میں سیاسی برف پگھلنے کا سبب بننے والی یوکرائن کے بحران کے حل کے سلسلے میں حالیہ پیشرفت کی طرف اشارہ کیا۔

Published: undefined

الکسزانڈر بوؤنوف نے روسی جرمن گیس پائپ لائن ''نورڈ اسٹریم 2 ‘‘ پر گزشتہ برس لگنے والی امریکی پابندیوں اور امریکا کی طرف سے عراق میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر حالیہ ڈرون حملے جیسے اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شاید یوکرائن کے بحران سے میرکل اور پوٹن کے مابین فاصلہ پیدا ہوا تھا لیکن امریکا کے یکطرفہ اور غیر متوقع اقدامات کے سبب روسی صدر اور جرمن چانسلر پھر سے قریب آ گئے ہیں۔

Published: undefined

روسی وزارت خارجہ نے سلیمانی کے خلاف امریکی اقدامات کو 'لاپرواہی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی جبکہ جرمنی کی وزارت خارجہ کے ترجمان رائنر بریول نے کہا ہے کہ برلن کو 'ایسی معلومات نہیں ملیں جن کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ امریکی حملہ بین الاقوامی قانون کے مطابق تھا۔‘

Published: undefined

کشیدگی میں کمی کی کوشش

Published: undefined

روسی تجریہ کاروں کے مطابق میرکل اور پوٹن کا ایک مشترکہ ہدف ہے اور وہ یہ کہ مشرق وسطیٰ بحران کو بڑھنے سے روکا جائے۔ مشرق وسطٰی امور کے ماہر آندرے اونتکوف کہتے ہیں، ''مشرق وسطٰی میں جو کچھ ہو رہا ہے، روس اس کے وسیع اور خونریز نتائج کے مد نظر اس کی روک تھام کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی اور بقیہ یورپ اس صورتحال کو ختم کرنے میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ لہذا روس کے لیے یورپ کے ساتھ اپنی پالیسیوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔‘‘

Published: undefined

ایک طرف روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کے ساتھ ملاقات میں جرمنی کے ساتھ متحدہ محاذ پیش کرنے اور روس کی مشرق وسطی میں ثالثی کی حیثیت اجاگر کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب برلن بھی مشرق وسطٰی میں پوٹن کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے طریقوں پرغور کر رہا ہے۔

Published: undefined

ماسکو اور برلن نے لیبیا کے بحران کے خاتمے کی اپیل بھی کی ہے۔ حالیہ دنوں میں طرابلس اور شہر سرت کے ارد گرد لڑائی بڑھتی چلی گئی ہے کیونکہ سابق جنرل خلیفہ حفتر کی سربراہی میں مشرقی لیبیا کی نیشنل آرمی طرابلس میں قائم حکومت کی وفادار افواج پر پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ جرمنی نے خبردار کیا ہے کہ لیبیا 'دوسرا شام‘ بن سکتا ہے۔

Published: undefined

جرمنی نے تنازعات میں شامل فریقین کے لیے امن کانفرنس منعقد کرنے کی پیش کش کی ہے جس کی ابھی کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے۔ اگر واقعی یہ کانفرنس منعقد ہو جاتی ہے، تو میرکل کی قدامت پسند کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے خارجہ پالیسی کے اسپیکر یُرگن ہارڈ کے مطابق یہ ایک 'بڑی سفارتی کامیابی‘ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ میرکل اس سلسلے ميں پیش قدمی پر زور دیں گی۔ انہوں نے مزید کہا ، ''ہمیں اس سلسلے میں کامیابی کے حصول کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined