خبریں

سعودی عرب میں خلیجی سمٹ پر علاقائی بحرانوں کے سائے

سعودی عرب میں ہونے والے خلیجی عرب ممالک کے سمٹ پر علاقائی بحرانوں کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ ان بحرانوں میں قطر کے ساتھ سفارتی تنازعہ، یمن کی جنگ اور سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل شامل ہیں۔

سعودی عرب میں خلیجی سمٹ پر علاقائی بحرانوں کے سائے
سعودی عرب میں خلیجی سمٹ پر علاقائی بحرانوں کے سائے 

سعودی دارالحکومت ریاض سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ سربراہی کانفرنس دراصل خلیج کی چھ عرب ریاستوں پر مشتمل خلیجی تعاون کونسل یا جی سی سی کا سمٹ ہے، جس کے لیے سعودی حکومت کی طرف سے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کو بھی دعوت دی گئی ہے۔

Published: undefined

ریاض کی طرف سے شیخ تمیم بن حمد الثانی کو اس سمٹ میں شرکت کی دعوت دینا اس لیے بھی اہم ہے کہ سعودی عرب اور جی سی سی کی رکن اس کی دو اہم اتحادی ریاستوں بحرین اور متحدہ عرب امارات نے گزشتہ برس قطر کے ساتھ اپنے سفارتی روابط منقطع کر دیے تھے۔

Published: undefined

سب سے بڑا علاقائی سیاسی تنازعہ

Published: undefined

یہ واضح نہیں کہ آیا قطر کے امیر جی سی سی کے اس سالانہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ جہاں تک خلیجی تعاون کونسل کے رکن باقی دو ممالک کویت اور عمان کا تعلق ہے، تو وہ اب تک قطر کے ساتھ اس سفارتی تنازعے میں غیر جانبدار ہی رہے ہیں، جو تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی عرب ریاستوں کا آج تک کا سب سے بڑا علاقائی سیاسی تنازعہ بن چکا ہے۔

Published: undefined

سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر کے ساتھ اپنے ہر قسم کے رابطے یہ الزام لگا کر منقطع کیے تھے کہ دوحہ حکومت مبینہ طور پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کے علاوہ ایران کے ساتھ قریبی روابط کو بھی فروغ دے رہی تھی، جو خطے میں سعودی عرب کا سب سے بڑا حریف ملک ہے۔ دوسری طرف قطر اپنے خلاف ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے۔

Published: undefined

اس کے علاوہ اسی مہینے دوحہ نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ وہ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کی رکنیت سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اوپیک پر سعودی عرب کو کافی حد تک غلبہ حاصل ہے، جو کہ دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

Published: undefined

’تمام پل جلا دیے گئے‘

Published: undefined

قطر کی طرف سے اس کے اوپیک سے اخراج کے اعلان پر بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ نے ریاض میں سربراہی کانفرنس شروع ہونے سے کچھ پہلے یہ تبصرہ کیا تھا، ’’قطر نے وہ تمام پل جلا دیے ہیں، جن پر چلتے ہوئے وہ خلیجی تعاون کونسل میں اپنا مقام حاصل کر سکتا تھا۔‘‘

Published: undefined

خلیجی تعاون کونسل کا قیام 1981ء میں عمل میں آیا تھا، جب ایران اور عراق کی جنگ اپنے عروج پر تھی اور ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کو ابھی صرف دو برس ہی ہوئے تھے۔ تب سنی مسلم حکمرانوں والی ان عرب ریاستوں کو، جن میں مقامی سطح پر شیعہ مسلم آبادی کا تناسب بھی اچھا خاصا ہے، خاص طور پر بحرین میں، یہ خدشات لاحق ہو گئے تھے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے خود ان کے اپنے ہاں بھی اثرات دیکھنے میں آ سکتے تھے۔

Published: undefined

یمن کی جنگ

Published: undefined

اتوار نو دسمبر کے روز ریاض میں اس خلیجی سمٹ پر یمن کی جنگ کے گہرے سایوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یمنی جنگ کے فریقین میں سے حوثی شیعہ باغیوں کو ایرن کی حمایت حاصل ہے جبکہ یہ باغی جس حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں، اس کی حمایت سعودی عرب کرتا ہے۔ اسی لیے سعودی عرب نے حوثی باغیوں کے خلاف اپنی قیادت میں ایک عسکری اتحاد بھی قائم کر رکھا ہے، جو پچھلے سال سے یمن میں باغیوں کے ٹھکانوں پر زمینی اور فضائی حملے بھی کر رہا ہے۔

Published: undefined

اس کے علاوہ یہ سمٹ ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے، جب اقوام متحدہ کی ثالثی کوششوں کے نتیجے میں سویڈن میں پہلی بار حوثی باغیوں اور یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے نمائندوں کے مابین امن بات چیت بھی ہو رہی ہے۔ حوثی باغیوں نے 2014ء میں یمنی دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر کے تب تک وہاں برسراقتدار حکومت کو وہاں سے نکال دیا تھا۔ اب یمن کی یہ حکومت جنوبی بندرگاہی شہر عدن میں قائم ہے۔

Published: undefined

دس ہزار انسانی ہلاکتیں

Published: undefined

یمن کی خانہ جنگی کے 2014ء میں شدید ہو جانے کے بعد سعودی قیادت میں جو عسکری اتحاد قائم ہوا تھا، اس نے 2015ء میں اس تنازعے میں مسلح مداخلت شروع کر دی تھی۔ تب سے اب تک یہ جنگ قریب 10 ہزار انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن چکی ہے، لاکھوں یمنی باشندے بے گھر ہو چکے ہیں اور اس ملک کی نصف سے زائد آبادی کو خوراک کی دستیابی کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

Published: undefined

انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے مطابق یمن کی جنگ میں اب تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد 10 ہزار نہیں بلکہ یہ تعداد اس سے پانچ گنا زیادہ تک ہو سکتی ہے۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کے مطابق یمن کا تنازعہ دنیا کا سب بدترین انسانی بحران بن چکا ہے، جہاں اس وقت ڈیڑھ کروڑ سے زائد انسانوں کو خوراک کی دستیابی کے سلسلے میں شدید مسائل کا سامنا ہے اور عنقریب یہ تعداد مزید اضافے کے بعد دو کروڑ یا یمن کی کل آبادی کے 67 فیصد تک پہنچ جائے گی۔

Published: undefined

جمال خاشقجی کا قتل

Published: undefined

جی سی سی کی اس سمٹ پر جس تیسرے بحران کے گہرے سائے موجود ہیں، وہ ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کا اکتوبر کے اوائل میں کیا جانے والا وہ قتل ہے، جس کا الزام ترک تفتیشی ماہرین کی طرف سے سعودی عرب کی اعلیٰ قیادت پر لگایا جاتا ہے۔

Published: undefined

اس کے برعکس سعودی حکمران یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ خاشقجی کو انتہائی بے دردی سے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اقدام سعودی سکیورٹی اہلکاروں کا ذاتی فعل اور ایک ’سنگین غلطی‘ تھا، جس کا سعودی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ ریاض حکومت کی طرف سے ان دعووں کی بھی تردید کی جاتی ہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور ریاض میں ملکی حکمرانوں کے ناقد جمال خاشقجی کے قتل کا حکم مبینہ طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دیا تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined