خبریں

افغان خواتین نے اپنے حقوق کے لئے کھینچی ’سرخ لکیر‘

افغان خواتین سوشل میڈیا پر امن کے لیے ’میری سرخ لکیر‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بحث میں مصروف ہیں۔ ان خواتین کے مطابق طالبان کے ساتھ کسی بھی امن معاہدے میں خواتین کے حقوق پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔

افغان خواتین کے لیے ’سرخ لکیر‘
افغان خواتین کے لیے ’سرخ لکیر‘ 

کبریٰ صمیم افغانستان کی قومی سائیکلنگ ٹیم کا حصہ ہیں۔ اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ خواتین کی کھیلوں میں شمولیت ان کے لیے ’سرخ لکیر‘ ہے۔

Published: undefined

ایک ایسے موقع پر جب امریکا طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدے کے لیے کوشاں ہے، افغان خواتین چاہتی ہیں کہ مستقبل میں طالبان کی حکومت میں کسی ممکنہ شراکت داری سے ان کے حقوق سلب نہ ہوں۔ سابقہ سیاست دان فرخندہ زہرہ نادری نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ خواتین کی فیصلہ ساز عہدوں پر تعیناتی کا تحفظ اور ان کے سماجی کردار پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔ انسانی حقوق کی کارکن سمیرا حامدی نے مطالبہ کیا ہے کہ خواتین کو بھی امن مذاکرات میں شامل کیا جائے۔

Published: undefined

افغانستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سوشل میڈیا پر #MyRedLine کے ہیش ٹیگ کے ساتھ جاری اس مہم میں حصہ لے رہی ہیں، تاکہ حکومت، طالبان اور امریکا پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ کسی بھی امن معاہدے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

Published: undefined

23 سالہ سائیکلسٹ صمیم کہتی ہیں، ’’اگر طالبان واپس آتے ہیں، تو ہمیں پھر سے تعلیم اور کھیلوں میں شرکت جیسے حقوق سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے۔ ہمارے گھروں سے باہر نکلنے پر پھر سے پابندیاں لگ جائیں گی۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا، ’’ہم امن چاہتے ہیں مگر ہم کھیلوں اور سائیکلنگ کو جاری بھی رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

افغان صحافی فرح ناز فروتان، جنہوں نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کے تعاون سے #MyRedLine مہم کا آغاز کیا، کہتی ہیں، ’’میرے لیے سرخ لکیر میرا قلم اور میری آزادیء اظہار ہے۔‘‘

Published: undefined

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ’’اگر امن جنگ کے تمام متاثرہ افراد کو سماجی انصاف مہیا نہیں کرتا، تو یہ پائیدار امن نہیں ہو گا۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ماہ اس ہیش ٹیگ مہم کے آغاز کے بعد سے اب تک ہزاروں خواتین اسے شیئر کر چکی ہیں، حتیٰ کہ صدر اشرف غنی تک نے خواتین کے حقوق کو حکومت کے لیے سرخ لکیر کے ساتھ ٹویٹ کیا ہے۔ فروتان کے مطابق طالبان حکومت میں خواتین کسی بھی دوسرے معاشرتی عنصر کے مقابلے میں سب سے زیادہ کم زور تھیں۔

Published: undefined

اس مہم میں انگریزی کے علاوہ پشتو اور دری زبانوں میں بھی خواتین شریک ہیں۔

Published: undefined

واضح رہے کہ امریکی مداخلت کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے سے قبل طالبان نے افغانستان میں اسلام کی سخت ترین تشریحات پر مبنی شرعی قوانین نافذ کر رکھے تھے اور خواتین کو جبری طور پر برقعہ پہننا اور گھروں میں قید رہنا پڑتا تھا، جب کہ ان کے اسکول جانے پر بھی پابندی تھی۔ اس کے علاوہ زنا کے الزامات پر متعدد مرتبہ خواتین کو سرعام سنگ سار تک کیے جانے کے واقعات دیکھے جاتے تھے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined