قومی خبریں

یوگی جی، آپ نے تو ہماری پہچان ہی ختم کر دی... ظفر آغا

یوگی حکومت بھلے ہی نام بدل دے لیکن الٰہ آباد، الٰہ آباد تھا اور الٰہ آباد ہی رہے گا۔ صرف اسٹیشنوں اور دفتروں کے بورڈ بدل دینے سے شہروں کی تاریخ اور ان کی یادیں نہیں مٹ جاتیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 
مضمون نگار: ظفر آغا

راتوں رات ہماری شہریت ختم ہو گئی۔ ارے، صرف شہریت ہی کیا، ہماری تو پہچان ہی ختم ہو گئی۔ جی ہاں، ہمارے جیسے لاکھوں ’الٰہ آبادی‘ اب الٰہ آبادی نہیں رہے۔ یہ فیصلہ کسی الٰہ آبادی شہری کا نہیں تھا۔ ایدی امین کی طرح اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی جی کو خواب میں یہ معلوم ہوا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ الٰہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر دو۔ اور بس یوگی جی نے جھٹ پٹ الٰہ آباد کا نام بدل دیا۔ یوگی جی اور بی جے پی کو شاید یہ سمجھ نہیں ہے کہ شہر شہریوں سے بنتے ہیں۔ پھر شہروں کے نام کے ساتھ صرف جغرافیہ ہی نہیں بلکہ تاریخ، زبان، رہن سہن کا طریقہ، بولی، خورد و نوش اور اس کی تہذیب بھی جڑی ہوتی ہے۔ مثلاً الٰہ آباد کا یونیورسٹی اور کالجوں میں پڑھنے والے نوجوان ایک دوسرے کو ’کس میں‘ یا ’کس گرو‘ کہہ کر پکارتا ہے۔ اس ’کس گرو‘ کے الٰہ آباد والے کے لیے کئی معنی ہوتے ہیں۔ اور اس کے معنی بولنے کے لہجے پر منحصر ہوتا ہے۔ یہی ’کس گرو‘ اعزاز کے لہجے میں بولا جائے تو وہ ایک دوستانہ پکار سمجھی جائے گی۔ لیکن یہی ’کس گرو‘ اگر تلخ لہجے میں بولا جائے تو وہ ایک تنبیہ کی شکل اختیار کر لے گی اور یہ باریک فرق صرف ایک الٰہ آبادی ہی سمجھ سکتا ہے۔

یہ باریک لیکن انسانی تہذیب سے متعلق فرق بلاشبہ یوگی جیسے کم عقل سیاسی لیڈر کی سمجھ سے پرے لگتا ہے۔ تبھی تو راتوں رات یو پی حکومت کا فرمان جاری ہوا اور الٰہ آباد پریاگ راج ہو گیا۔ ارے، ہم الٰہ آباد میں پیدا ہوئے، وہاں کی گلیوں و سڑکوں پر سائیکل چلا کر جوان ہوئے، وہاں کے امرود کے باغوں سے ہم نے امرود توڑ کر کھائے، لوک ناتھ میں ہری کے سموسوں اور ہری کے سامنے والی لسّی کی دکان سے لسّی پی، پھر الٰہ آباد یونیورسٹی سے صرف ڈگری ہی نہیں شعور بھی حاصل کیا۔ بھلے ہی ملازمت کے لیے گزشتہ تقریباً چار دہائیوں سے دہلی میں ہیں۔ لیکن ہمارا آباد آج بھی ہمارے ساتھ زندہ ہے۔ کیونکہ یہ ہماری پہچان ہے۔ آج بھی ہم سے ہندوستان کے کسی گوشے میں کوئی پوچھتا ہے کہ بھئی تم کہاں کے رہنے والے ہو، تو ہمارے منھ سے دہلی نہیں الٰہ آباد ہی نکلتا ہے۔ کیوں! ہم تو چالیس سالوں سے دہلی والے ہیں، لیکن اب بھی خود کو اپنے بچپن اور الہڑ جوانی کو الٰہ آباد سے الگ نہیں کر پاتے۔ آخر کیوں! سیدھی اور سادی سی وجہ یہ ہے کہ جو جہاں پیدا ہوا وہی اس کی پہچان ہے۔ الٰہ آباد ہماری پہچان ہے اور الٰہ آباد کو پریاگ راج کا نام دے کر یوگی جی نے ہماری پہچان پر ڈاکہ ڈالا ہے۔

ارے، یوگی جی آپ ہم الٰہ آبادیوں سے کیا کیا چھینیں گے۔ ہمارا کافی ہاؤس کل بھی الٰہ آباد کا کافی ہاؤس تھا اور آج بھی وہ الٰہ آباد کافی ہاؤس ہی رہے گا۔ وہاں کی یادیں ہم کو الٰہ آباد کافی ہاؤس کے نام سے ہی آج بھی اجاگر ہوں گی۔ سنہ 70-1960 کی دہائی کے دھوئیں اور مباحث کے شور میں ڈوبا الٰہ آباد کافی ہاؤس، جہاں کبھی سمترا نندن پنت، تو کبھی فراق گورکھپوری، تو کبھی جھولا لٹکائے دودھ ناتھ سنگھ اور کبھی مہادیوی ورما جیسے معروف لوگوں کی باتیں ہم نے سنیں۔ ہیم وتی نندن بہوگنا، چندر شیکھر اور وشوناتھ پرتاپ سنگھ جیسے لیڈروں کو آتے جاتے دیکھا۔ مرکنڈے کاٹجو جیسی بے خوف ہستیوں کے ساتھ کافی پی۔ یہ تمام یادیں الٰہ آباد کافی ہاؤس کی ہیں۔ یہ یادیں ’پراگ راج کافی ہاؤس‘ کے نام سے کبھی اجاگر نہیں ہو سکتیں۔

وہ الٰہ آباد کی سول لائنس، وہ وہاں کا الچیکو ریسٹورینٹ اور رامابار، یونیورسٹی میں ہمارا طلبا سیاست میں ڈوبنا، وہاں کے انگریزی محکمہ میں آلوک رائے اور مانس مکل داس جیسے ہمارے استادوں کا ہم کو تعلیم دینا، وہ سنہ 1968 کا الٰہ آباد کا سیلاب اور پھر وہ ہمارے نوجوان ساتھیوں کا فلڈ ریلیف کا کام۔ ارے، اسی فلڈ ریلیف کے کام کے درمیان ایک روز ہم ایک بستی میں اندرا گاندھی سے ٹکرا گئے۔ وہ اس وقت اپوزیشن میں تھیں اور الٰہ آباد میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کر رہی تھیں۔ ہم ایک بستی میں کھانا بانٹ کر لوٹ رہے تھے کہ یکایک ہمارے دوست شکتی اور فرید چیخ پڑے... اندرا جی۔ اب نگاہیں جو اٹھائیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ کیچڑ سے لت پت اندرا جی ساڑی اٹھائے سیلاب متاثرہ عوام کے پاس چلتی چلی جا رہی ہیں۔ یوگی جی کیا آپ ان یادوں کو چھین سکتے ہیں۔ نہیں، کبھی نہیں۔ یہ یادیں ہمیشہ الٰہ آباد کو ڈھونڈتی رہیں گی۔ ان کا پریاگ راج سے کبھی کوئی لینا دینا نہیں ہو سکتا ہے۔ اتنی سمجھ تو یوگی جی کو بھی ہونی چاہیے’

Published: 18 Oct 2018, 2:09 PM IST

یوگی جی کو یہ سمجھ تو ہو سکتی ہے، لیکن ان میں یہ احساس ہرگز نہیں کہ یادوں کی کیا قدر ہے۔ یوگی تو سیاست کر رہے ہیں۔ ان کی سیاست کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے شہروں کو نیا نام دے کر ہندو ووٹ بینک بنانا۔ آج کی سیاسی سمجھ والے لوگوں کے لیے یہ سمجھنا ناممکن نہیں ہے کہ الٰہ آباد میں چھپے اللہ کے نام کو ہٹا کر یوگی جی یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ بی جے پی سیاست میں ’اللہ والے‘ مسلمانوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ آپ نے الٰہ آباد کا نام پریاگ راج اس لیے کر دیا کیونکہ آپ اور آپ کے لیڈر نریندر مودی کو سنہ 2019 کے انتخابات کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ کام کاج کے نام پر یوگی ہوں یا مودی ہوں، دونوں ہی ٹھن ٹھن گوپال ہیں۔ اتر پردیش میں انکاؤنٹر اور گڈھوں والی سڑکوں سے الگ کوئی تذکرہ نہیں۔ کیونکہ یوگی جی نے کوئی کام کیا ہی نہیں ہے۔ ملک میں ڈوبتے روپے، چڑھتی تیل کی قیمتیں، بڑھتی مہنگائی، نوٹ بندی سے پریشان تاجر، جی ایس ٹی سے بے حال کاروباری، چائے کے اڈوں پر بیٹھا بے روزگار نوجوان، کھیت کھلیانوں میں فکرمند کسان کی ہی بات ہو رہی ہے۔ ایسے میں مودی جی کو اتر پردیش سے سنہ 2014 کی طرح 70 سے زیادہ لوک سبھا سیٹیں آخر ملیں تو ملیں کیسے۔ بس ایک ہی طریقہ ہے، مذہب کی افیم پلاؤ، ہندو-مسلمانوں کو بانٹو اور ووٹ بٹورو۔ اب یوگی حکومت یہ کیسے بتائے کہ وہ ایک ہندو حکومت ہے اور اس میں مسلمانوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ الٰہ آباد کو پریاگ راج کر دو تو اشارہ چلا جائے گا۔

ارے، اس ملک کا ہندو کوئی ناسمجھ نہیں ہے۔ ہندوستان کوئی پاکستان نہیں ہے کہ جہاں مذہب کے نام پر عوام ہمیشہ مودی کو سر پر اٹھائے رہے۔ سنہ 2014 میں ’وِکاس‘ کے جھانسے نے مودی کو وزیر اعظم مودی بنا دیا۔ یوگی اور مودی کے ذریعہ الٰہ آباد کا نام بدلنے جیسی سستی سیاست کا جھانسہ اب چلنے والا نہیں۔

یوگی حکومت بھلے ہی نام بدل دے لیکن الٰہ آباد، الٰہ آباد تھا اور الٰہ آباد ہی رہے گا۔ صرف اسٹیشنوں اور دفتروں کے بورڈ بدل دینے سے شہروں کی تاریخ اور ان کی یادیں نہیں مٹ جاتیں۔

Published: 18 Oct 2018, 2:09 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 18 Oct 2018, 2:09 PM IST