قومی خبریں

’دن میں 19 گھنٹے کام کرتا ہوں، نیند بھی پوری نہیں ہو پاتی‘، بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس گوتم پٹیل نے ایسا کیوں کہا؟

بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس گوتم پٹیل نے ایڈووکیٹ سے مذاقیہ انداز میں کہا کہ ’’میرے حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے لیے آپ کے خلاف ایکشن لوں گا۔‘‘

بامبے ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
بامبے ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس 

بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس گوتم نے 8 فروری کی شام 4.30 بجے جب 16 معاملوں کی سماعت کے بعد اٹھنے لگے تو ایک وکیل نے ان کے سامنے ایک معاملے پر آئندہ دن ارجنٹ سماعت کی درخواست لے کر پہنچ گئے۔ اس درخواست کو سن کر جسٹس گوتم نے کچھ ایسا کہا جس سے ان کی تکلیف ظاہر ہو گئی۔ انھوں نے کہا کہ ’’دن میں 19-19 گھنٹے کام کرتا ہوں۔ نیند بھی پوری نہیں ہو پاتی ہے۔ اگلی تاریخ کے لیے 70 سے زیادہ معاملوں کو پڑھنا پڑتا ہے، ججمنٹ میں تصحیح جیسے کام الگ ہیں ہی۔‘‘

Published: undefined

بار اینڈ بنچ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جسٹس گوتم پٹیل کی بنچ شام 4.30 بجے جب 16 معاملوں کی سماعت کے بعد اٹھنے کو ہوئی تو ایک ایڈووکیٹ نے اپنے معاملے کا تذکرہ کیا جو اسی دن فہرست بند تھا۔ ایڈووکیٹ نے جسٹس پٹیل سے ایمرجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے معاملے پر اگلے دن ہی سماعت کی اپیل کی۔ لیکن جسٹس پٹیل نے سرکولیشن سے صاف انکار کر دیا۔ جسٹس گوتم نے کہا کہ ’’کوئی سوال ہی نہیں بنتا ہے کہ معاملے پر اگلے دن سماعت ہو۔‘‘ انھوں نے مذاقیہ انداز میں یہ بھی کہا کہ ’’میرے حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے لیے آپ کے خلاف ایکشن لوں گا۔‘‘ جسٹس گوتم نے باتوں ہی باتوں میں بتایا کہ کس طریقے سے ججوں کو مقررہ مدت سے کہیں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور انھوں نے اپنی مثال سب کے سامنے رکھ دی۔

Published: undefined

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ہی چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ اور سپریم کورٹ کے جسٹس سنجے کشن کول نے بھی اس مسئلہ کو ہائی لائٹ کیا تھا اور بتایا تھا کہ کس طریقے سے عدلیہ پر کام کا دباؤ ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے بتایا تھا کہ کس طریقے سے عدالتی گھنٹوں کے بعد کیسز کو پڑھنے اور ریسرچ میں گھنٹوں گھنٹوں کا وقت لگتا ہے۔ علاوہ ازیں جسٹس سنجے کشن کول نے بھی کہا تھا کہ کسی کو عدالت کے چار پانچ گھنٹے کے علاوہ کام نظر نہیں آتا ہے۔ عدالت کے کام کے بعد ہمیں 8-7 گھنٹے پڑھنا پڑتا ہے، ججمنٹ لکھنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بریک کا بھی وقت اسی میں چلا جاتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined