قومی خبریں

’ترنمول کانگریس میں تھے تو افطار کرتے تھے‘، ممتا بنرجی نے بی جے پی رکن اسمبلی شُبھیندو ادھیکاری پر کیا جوابی حملہ

ممتا بنرجی نے کہا کہ اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ میں نے اسمبلی میں بایاں محاذ کی حکومت کے دوران کرسی یا میز توڑی ہے، تو میں استعفیٰ دے دوں گی۔

<div class="paragraphs"><p>ممتا بنرجی اور شُبھیندو ادھیکاری، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

ممتا بنرجی اور شُبھیندو ادھیکاری، تصویر سوشل میڈیا

 

مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس اور بی جے پی لیڈران کے درمیان ہر معاملے پر زبانی جنگ دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمیشہ یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔ اب بی جے پی رکن اسمبلی شبھیندو ادھیکاری کے ایک بیان پر تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ بنگال اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد شبھیندو ادھیکاری نے ایوان میں مائک بند کیے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی کی حکومت آنے پر ایوان سے مسلم اراکین اسمبلی کو سڑک پر پھینک دیں گے۔ اب اس معاملے میں ریاستی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے جوابی حملہ کیا ہے۔

Published: undefined

ممتا بنرجی نے شبھیندو ادھیکاری کا نام لیے بغیر کہا کہ ’’اس (بی جے پی) پارٹی میں بہت غصہ ہے، کیونکہ یہ افطار کا مہینہ ہے۔ جب آپ (شبھیندو ادھیکاری) ترنمول میں تھے تو آپ افطار کرتے تھے۔ اب جب آپ نے کوٹ بدل لیا ہے تو اچانک آپ کوئی اور بن گئے ہیں۔‘‘ ممتا بنرجی نے مزید کہا کہ جب ہم کرسی پر بیٹھتے ہیں تو سبھی کا خیال رکھتے ہیں۔ اگر کوئی ایوان میں بولنا چاہتا ہے تو میں بھی سنوں گی۔ یہ جمہوریت ہے۔ جب وزیر اعلیٰ بولتی ہیں تو سبھی کو سننا چاہیے۔

Published: undefined

اقلیتی طبقہ کے خلاف زہر اگلے والوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ممتا بنرجی نے کہا کہ ’’جب آپ خون چڑھاتے ہیں تو مذہب کہا سے آتا ہے، کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے جسم میں کس کا خون چڑھا ہے؟ جب وزیر اعظم ایران و سعودی عرب جاتے ہیں تب مذہب کہاں ہوتا ہے؟‘‘ بی جے پی کے ذریعہ فرہاد حکیم سے متعلق عائد کیے جا رہے الزام کو ممتا بنرجی نے بے بنیاد قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں نے فرہاد حکیم کو تنبیہ دی ہے کہ فرقہ وارانہ الفاظ نہ بولیں، حالانکہ یہ پارٹی کا داخلی معاملہ ہے، پھر بھی میں کہتی ہوں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ لیکن شبھیندو ادھیکاری کے اس بیان کے بارے میں کیا کہنا ہے کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو مسلم اراکین اسمبلی کو ایوان سے باہر کر دیا جائے گا۔ 33 فیصد اقلیتی ووٹرس کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined