قومی خبریں

ہڑپا کے لوگوں کی زبان قدیم ایرانی زبان سے کب علیحدہ ہوئی!... وصی حیدر

ہڑپا تہذیب کی دریافت 1920 کے آس پاس ہوئی لیکن اس سے بہت پہلے 1853 میں ایڈون نورس (جنھوں نے بیہشان لکھائی کو پڑھا) نے تامل زبان اور ایران کی ایلامائٹ زبان میں بہت ساری یکسانیت کا ذکر کیا ہے۔

Getty Images
Getty Images IRAN: Inscription of Darius I and Xerxes in three languages, ancient Persian, Elamite and Babylonian, in Ganjnameh, near Hamedan, Iran. Achaemenid civilisation, 6th-5th century BC. Detail. (Photo by DeAgostini)

(31 ویں قسط)

پرانی دراوڑ زبان کو سمجھنے کے بعد یہ سمجھنا آسان ہے کہ یہ پرانی ایران کے زغروس کے لوگوں کی زبان سے کب علیحدہ ہوئی۔ کیونکہ ان دونوں زبانوں میں بھیڑ اور بکری کے پالتو بننے کے بعد ہی ہوئی ہوگی، ان دونوں زبانوں میں ان جانوروں کے لئے ایک ہی طرح کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اس کے علاوہ کھیتی کی شروعات ہوچکنے کے بعد ہی ،کیونکہ ہالپوں سے اناج حاصل کرنے کے طریقہ کار اور ان کے لئے الفاظ بھی ایک جیسے ہیں۔ ان دونوں زبانوں کی علیحدگی زبانوں کی لکھائی(اسکرپٹ) کی ایجاد سے پہلے ہوئی ہوگی۔ اوپری اور نیچے کی حدوں کی وجہ نیچے بیان کی گئی ہے۔

Published: undefined

ہم کو یہ معلوم ہے کہ بھیڑ اور بکری کے پالتو بنانے کا سب سے پرانہ ثبوت 7900 قبل مسیح کا زغروس پہاڑیوں کے گنج ڈر ہے کا ہے۔ یعنی 7900 قبل مسیح کے بعد ہی دونوں زبانیں علیحدہ علیحدہ علاقوں میں پھیلیں۔یہ بھی یقین سے معلوم ہے تصویروں کی شکل(Cuneiform) میں لکھائی کی ایجاد 3000 قبل مسیح کے آس پاس ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دونوں زبانوں(دراوڑ اور زغروسین ) کی علیحدگی 3000 قبل مسیح سے پہلے ہی ہوئی ہوگی۔

Published: undefined

زبانوں کی تحقیقات کی تاریخ DNA کی معلومات سے بہت زیادہ پرانی ہے، لیکن یہ دلچسپ حسن اتفاق ہے کہ ہڑپا اور زغروس علاقہ کی زبانوں اور انسانی آبادی کی ملاوٹ کے اوقات کے بارے میں دونوں ایک ہی نتیجہ پر پہنچے۔ ہڑپا تہذیب کی دریافت 1920 کے آس پاس ہوئی لیکن اس سے بہت پہلے 1853 میں ایڈون نورس (جنھوں نے بیہشان لکھائی کو پڑھا) نے تامل زبان اور ایران کی ایلامائٹ زبان میں بہت ساری یکسانیت کا ذکر کیا ہے۔

Published: undefined

زغروس کی الامائٹ اور پرانی دراوڑ زبان کے رشتہ کا سب سے تفصیلی و تحقیقاتی مضمون میک الپائن نے 1981 میں لکھا۔ یہ بہت ہی مشکل کام تھا کیونکہ الامائٹ کا اب پچھلے دو ہزار سال سے نہ کوئی لکھنے یا بولنے والا ہے۔ الامائٹ کا آخری نسخہ 450 قبل مسیح کا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سب کا قیاس ہے کہ ان دونوں زبانوں میں علیحدگی چھ ہزار سال قبل مسیح میں ہوئی۔ میک الپائن نے الامائٹ کے 250 الفاظ میں ان الفاظ کا کوڈھونڈھا جو دراوڑ زبان میں بھی ہیں ، اس کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ 40فیصد سے زیادہ الفاظ ایک جیسے ہیں۔ پھر وقت گزر نے کے ساتھ اورزیادہ یکسانیت کے ثبوت ملے ہیں۔

Published: undefined

ان تحقیقات کا ایک نتیجہ پرانی دراوڑ زبانوں کا ہڑپا کی زبان سے ہے اور دوسرا اہم پہلو میسوپوٹامیا میں بولی جانے والی زبانوں کا (خاص کر اکاڈین سے) تمام درواڑ زبانوں سے ہے۔ مثال کے طور پر سرسوں کے بیج (جس سے تیل نکالا جاتا ہے) کا نام (اللو) ان زبانوں میں سے ایک ہے ، سرسوں کا پودا ہڑپا سے ہی میسوپوٹامیا پہنچا ہے۔

Published: undefined

یہ سوال ہے کہ وہ زبانیں (انڈو-یوروپین ) جو اب اس تمام علاقہ میں ر ائج ہیں ان کا پرانہ نسخہ ہڑپا کی زبان تھی، تمام ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ انڈو-یورپین زبانیں 2000 قبل مسیح کے بعد ہی ایشیا کے چراگاہوں سے آنے والے لوگ لائے اور یہ وقت ہڑپا کی تہذیب کے زوال کا ہے۔ جنیٹکس کے پرانے DNA کی تحقیقات بھی یہی ثابت کرتی ہے کہ ایشیا کی چراگاہوں سے آنے والے لوگ ہڑپا تہذیب کے ڈھلتے وقت ہی آئے اور وہ اپنے ساتھ سنسکرت کا پرانہ نسخہ اور اپنے ساتھ مختلف رسم ورواج ، خاص کر دیوتاؤں کے لئے قربانی دینے کے رواج کوساتھ لے کر آئے۔ سب سے پرانے وید(رگ وید) میں ان رواجوں کا ذکر ہے اور یہ لوگ اپنے کو آرین کہتے تھے۔

Published: undefined

مختصراً نتیجہ یہ ہے کہ ہڑپا کے لوگوں کا آرین سے اور نہ ہی سنسکرت زبان سے کوئی تعلق ہے یہ لوگ ویدا کی تشکیل سے آرین کے آنے سے پہلے کے لوگ تھے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined