پریس کانفرنس کرتی ہوئی کانگریس لیڈر الکا لامبا، تصویر قومی آواز/ویپن
’’جب ہم معاشی و سیاسی انصاف کی بات کرتے ہیں، تو بہار کی حالت سامنے آ جاتی ہے۔ بہار میں جو سچائی ہے، اسے ’نیشنل فیملی ہیلتھ سروے‘ بھی انجان ہے۔ حکومت ہند کے ذریعہ این ایف ایچ ایس کی سروے رپورٹ ابھی تک جاری نہیں کی گئی ہے۔ آج ہندوستان میں 40 کروڑ خواتین ہیں، جن کی عمر 11 سال سے 49 سال کے درمیان ہے۔ یہ سبھی ماہواری کے دوران پیڈ استعمال کرتی ہیں۔ ایسے میں ہمیں ہر مہینے 400 کروڑ پیڈ کی ضرورت ہے، لیکن بہار میں 80 فیصد بچیوں کو پیڈ ملتا ہی نہیں ہے۔‘‘ یہ بیان آج آل انڈیا مہیلا کانگریس کی قومی صدر الکا لامبا نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ بہار میں رواں سال کے آخر تک اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، اور سبھی سیاسی پارٹیوں نے اس کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ کانگریس بھی بہار میں برسراقتدار نتیش حکومت کی خامیوں کو ظاہر کرنے کے لیے پریس کانفرنس اور ریلیوں کا انعقاد کر رہی ہے۔ آج الکا لامبا نے بہار کے ایک اہم ایشو کو سامنے رکھا، جو کہ خواتین سے جڑا ہوا۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’بہار کے ہر اسکول میں سینیٹری مشین لگنی تھی، لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 40 ہزار اسکولوں میں سے محض 350 اسکولوں میں سینیٹری پیڈ دستیاب کرائے جانے کی بات کی گئی ہے۔‘‘
Published: undefined
بی جے پی اور جنتا دل یو اتحاد کی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے الکا لامبا نے کہا کہ ’’جو کام بہار حکومت کو کرنا تھا، وہ راہل گاندھی جی کی قیادت میں آل انڈیا مہیلا کانگریس نے ’پریہ درشنی اڑان پروجیکٹ‘ کے تحت کیا ہے۔ مہیلا کانگریس نے شروعاتی طور پر ملک میں تین جگہ– بیگوسرائے، ویشالی اور دہلی میں سینیٹری وینڈنگ مشین لگائی۔ ان مشینوں کے ذریعہ ہم نے 50 خواتین کو روزگار دیا ہے۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’’ہم راہل گاندھی کے یوم پیدائش کے موقع پر بہار میں 25 ہزار خواتین کو سینیٹری پیڈ تقسیم کریں گے، جس سے کہ وہ خواتین ’کپڑا سے پاک‘ ہو جائیں گی۔‘‘
Published: undefined
مہیلا کانگریس کی صدر کا کہنا ہے کہ آج بھی تقریباً 60 فیصد خواتین ماہواری کے وقت کپڑا استعمال کرتی ہیں اور سنگین بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ حکومت صرف اپنے کھوکھلے اشتہار اور تشہیر میں مصروف ہے۔ الکا کہتی ہیں کہ ’’راجستھان میں اشوک گہلوت کی حکومت کے دوران 19 نومبر 2011 کو ’پریہ درشنی اڑان پروجیکٹ‘ کی شروعات ہوئی۔ اس میں کانگریس حکومت 11 سے 45 سال کی 1.23 کروڑ خواتین کو مفت سینیٹری پیڈ دے رہی تھی۔ آج وہاں بی جے پی کی ڈبل انجن حکومت ہے، جہاں ہمیں پتہ چلا ہے کہ اڑان پروجیکٹ میں 1.5 کروڑ روپے کا گھوٹالہ کیا گیا، مفت کے سینیٹری پیڈ واپس حکومت کو ہی فروخت کر دیے گئے۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’’جب ہم نے بھرت پور، راجستھان کے آنگن واڑی میں پوچھا تو پتہ چلا کہ وہاں آخری بار 2024 میں 810 سینیٹر پیڈ آئے تھے۔ بی جے پی حکومت ملک کی 40 کروڑ زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔ جن پیڈ پر خواتین کا حق ہے، وہ بدعنوانی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
خواتین کو پیڈ کی عدم دستیابی پر فکر ظاہر کرتے ہوئے الکا لامبا کہتی ہیں کہ ’’ملک کے سروے بتاتے ہیں کہ اڈیشہ کے ملکان گری اور کالاہانڈی میں 97 فیصد خواتین ماہواری میں کپڑا استعمال کرتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہماری ریاستوں میں خواتین کی حالت کی سچائی بیان کرتے ہیں، لیکن حکومت آنکھ موندھ کر بیٹھی ہے۔ ان میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ 98 فیصد خواتین میں ماہواری سے متعلق بیداری میں کمی ہے۔‘‘ دہلی کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’دہلی کی جھگیوں میں 59 فیصد خواتین پیڈ خریدنے میں معاشی طور سے اہل نہیں ہیں، یعنی وہ بھی کپڑا استعمال کرتی ہیں۔ اس حکومت نے سینیٹری پیڈ پر بھی 12 فیصد جی ایس ٹی لگا دیا تھا، لیکن جب ہم نے مخالفت کی تو حکومت کو جھکنا پڑا۔ مودی حکومت اب بھی سینیٹری پیڈ بنانے کے لیے مستعمل سامانوں پر شدید ٹیکس وصول کر رہی ہے۔‘‘ کانگریس کی پیش رفت کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’ہماری خواتین جو پیڈ بنا رہی ہیں، ان کی قیمت بہت کم ہے اور اس میں ہم خواتین کو 10 روپے میں 5 پیڈ دیتے ہیں۔ ہماری اس پیش قدمی سے کئی خواتین کام اور کمائی دونوں کر رہی ہیں۔‘‘
Published: undefined
ہندوستان میں سینیٹری پیڈ بنانے والی مشینوں کے متعلق الکا لامبا نے کہا کہ ’’ملک میں جدید اور بڑی مشینوں سے بنائے گئے صرف 20 فیصد سینیٹری پیڈ ہی استعمال کیے جا رہے ہیں۔‘‘ وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ ’’20-2019 کے دوران گجرات میں 14 سے 17 سال کی 70 فیصد بچیوں نے ماہواری کے سبب اپنی اسکولی تعلیم چھوڑ دی۔ مدھیہ پردیش میں 15 سے 17 سال کی محض 10 فیصد بچیاں اسکول میں پڑھ رہی ہیں۔ این سی پی سی آر کی رپورٹ میں 18-15 سال کی لڑکیوں میں 40 فیصد بچیاں اسکولی تعلیم سے باہر نکل گئی ہیں۔‘‘ مہیلا کانگریس صدر کے مطابق بی جے پی کو سمجھنا ہوگا کہ نصف آبادی کی ترقی کے بغیر ملک آگے نہیں جا سکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined