قومی خبریں

جیوترآدتیہ سندھیا نے جو کیا وہ ان کے خون میں شامل ہے!

سندھیا راج گھرانے کی تاریخ میں جایا جائے تو یہ اقتدار کے علاوہ کبھی کسی کے سگے نہیں ہوئے۔ بغاوت کرنا اور واپس آنا ان کے خون میں شامل ہے اور وہ کسی نظریہ کے ساتھ نہیں جڑے ہیں۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا 

جیوترآدتیہ سندھیا نے کل جو کچھ کیا ہے وہ ان کے خاندان کے لئے کوئی نیا نہیں ہے۔وقتی طور پر کانگریس اور مدھیا پردیش کے لئےانہوں نے پریشانیاں ضرور کھڑی کی ہیں اور اپنے لئے انہوں نے ضرور کچھ سیاسی فائدہ اٹھا لئے ہیں لیکن سیاست کے لمبے سفر میں انہوں نے اپنا قد بہت چھوٹا کر لیا ہے۔

Published: 11 Mar 2020, 9:00 AM IST

ان کی دادی راجماتا وجے راجے سندھیا نے 1967 میں کانگریس کی حکومت گراکر مدھیا پردیش میں مخلوط حکومت قائم کی تھی ۔اس وقت انہوں نے اس وقت کے وزیر اعلی ڈی پی مشرا کی حکومت سے35 ارکان کے ساتھ اس لئے علیحدگی اختیار کر لی تھی کیونکہ وزیر اعلی نے راج گھرانے کی تنقید کر دی تھی۔ اس کے بعد گووند نرائن سنگھ وہاں کی مخلوط حکومت کے وزیر اعلی بنے تھے جو حکومت محض 19 ماہ ہی چل پائی تھی۔

Published: 11 Mar 2020, 9:00 AM IST

وجے راجے سندھیا نے اس کے بعد جن سنگھ میں شمولیت اختیار کر لی اور پھر ان کے بیٹے اور جیوترآدتیہ سندھیا کے والد مادھو راؤ سندھیا سیاست میں داخل ہوئے اور 26 سال کی عمر میں وہ گنا کی سیٹ سے چناؤ جیتے۔ 1977 میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑے اور جیتےاور پھر انہوں نے اپنے خاندان کو چھوڑکر کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی کیونکہ اس وقت کانگریس اقتدار میں تھی۔انہوں نے گوالیئر سے 1984 میں اٹل بہاری واجپئی کو ہرایا۔

Published: 11 Mar 2020, 9:00 AM IST

مادھو راؤ سندھیا بھی جب وزیراعلی نہیں بن پائے تھے تو انہوں نے کانگریس چھوڑکر یونائٹڈفرنٹ کی حکومت میں شمولیت اختیارکر لی تھی اور پھر بعد میں دوبارہ کانگریس میں آ گئے تھے۔ اگر سندھیا راج گھرانے کی تاریخ میں جایا جائے تو یہ اقتدار کے علاوہ کبھی کسی کے سگے نہیں ہوئے ۔ بغاوت کرنا اور واپس آنا ان کے خون میں ہے اور وہ کسی نظریہ کے ساتھ نہیں جڑے ہیں۔خود مادھو راؤ سندھیا کی دو بہنیں بی جے پی میں ہیں۔سندھیا کے اس عمل سے یہ واضح ہو گیاہے کہ وہ اقتدارکے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور ان کو اپنے رائے دہندگان سے کوئی مطلب نہیں ہے ،ان کی سوچ ابھی بھی وہی راج گھرانے والی ہے۔

Published: 11 Mar 2020, 9:00 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 11 Mar 2020, 9:00 AM IST